ذریعہ تعلیم کا مسئلہ اور اور وارث میر

پروفیسر وارث میر کو ہم سے جدا ہوئے 32 برس بیت گئے لیکن آج بھی جب کبھی ان کی فکر انگیز تحریروں کو جو وہ اپنے عہد میں رقم کر چکے، پڑھا جائے تو ایک زیرک قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انکی تحریروں آج بھی ہمیں ایک استاد، دانشور،مفکر،محقق،باضمیر تاریخ دان اور بے باک صحافی کی یاد دلاتی ہیں۔ پروفیسر وارث میر نے کبھی اپنی صداقت کا اور نہ ہی اپنے ضمیر کا سودا کیا اور ہر ناانصافی کے سامنے سینہ سپر رہے۔ پروفیسر صاحب نے اس دنیا میں بہت کم عرصہ گزارہ لیکن اسکے باوجود وہ اپنی تحریروں میں راہنمائی اور فکر کا وہ خزانہ چھوڑ گئے جس کو اگر آج بھی پڑھا جائے توتحقیق کی گہرائی اور دوراندیشی کا واضح اندازہ ہو جاتا ہے۔پروفیسر وارث میر صاحب کی پرتحقیق تحریروں میں جہاں ہمیں سیاسی،سماجی، معاشی ،ریاستی مسائل کا ذکر اور ان کا حل ملتا ہے ان ہی میں سے ایک مسئلہ پربطوراستاد اور محقق انہوں نے پاکستان کے ایک ایسے بنیادی مسئلہ کا بار بار ذکر کیا جو اس ملک کے وجود میں آنے سے لے کراب تک گزشتہ 72سالوں میں حل نہیں ہو سکا۔ یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کئی جمہوری اور فوجی حکومتیں قائم ہوئیں لیکن کسی بھی حکومت نے پاکستانی شہریوں کے بنیادی ذریعہ تعلیم کے حق کیلئے کوئی دیرپا اور ٹھوس اقدامات نہ کئے۔حالانکہ آئین پاکستان کے مطابق اعلٰی تعلیم کا حق ہر پاکستانی کو حاصل ہے۔ جس کا حصول ایک ذریعہ تعلیم اور ایک نظام تعلیم کے بغیر نا ممکن ہے۔ پروفیسر وارث میر نے بڑی دور اندیشی سے بطور محقق اور استاد اپنے دور کے جن تعلیمی مسائل کا ذکر کیا ان میں سب سے گھمبیر مسئلہ پاکستان میں یکساں ذریعہ تعلیم کا نہ ہونا ہی قرار دیا ہے۔ جو آج تک اردو اور انگریزی زبان کے درمیان فٹ بال بن چکا ہے۔ پرفیسر وارث میر نے بڑے دانش ورانہ انداز سے پاکستان میں" یکساں ذریعہ تعلیم‘‘ کے نفاذ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ایک ملک میں قومی یکجہتی اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے ایک قوم کو مختلف طبقات میں تقسیم ہونے سے بچنے کا حل یکساں تعلیمی نظام اور یکساں نصاب کو قرار دیا۔ یہ سب تعیلمی اقدامات کسی بھی قوم کے تمام افراد اور نمائندوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ماخز ہیں۔پاکستانی حکمران آج تک قوم کے لئے ایک یکساں نظام تعلیم صرف اس وجہ سے نہ نافذ کر سکے کیونکہ حکومت پاکستان اپنی قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم نہ بنا سکی۔ جس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو ان انگلش میڈیم پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانا شروع کر دیا۔ جو کہ سرکاری سکولوں کے مقابلے میں معیاری تعلیم دے رہے تھے۔ اور ملک میں اس دہرے تہرے تعلیمی نظام قائم ہونے کی نشاندہی اور مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کی پیشین گوئی پروفیسر وارث میر ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے 30 سال پہلے کر چکے تھے۔پروفیسر وارث میر نے اپنی ایک تحریر " ذریعہ تعلیم کا مسئلہ اور اردو زبان" میں پاکستان کے تعلیمی نظام میں پائے جانے والے سکولوں کے جن پانچ گروپس کا ذکر کیا ہے سرکاری سکول، عیسائی مشنری سکول، انگلش میڈیم سکول جو نجی وسائل سے چلائے جاتے ہیں، متمول طبقوں کے اعلٰی اقامتی سکول اورکمیونٹی سکولز(آغا خانی و بوہرہ کمیونٹی وغیرہ) ہیں۔ ان سکولوں میں دینی مدارس کو شمار نہیں کیا۔ ان مدارس کی دنیا ہی الگ ہے۔ ان کا مزاج اور نصاب پاکستان کے مستقبل کو جس زبردست طریقے سے متاثر کرے گا، اس کے امکانات کی طرف ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی۔"پروفیسر وارث میر نے دینی مدارس کے جس مزاج اور نصاب کی نشاندہی کی، تین دہائیوں کے بعد آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان جس دہشت گردی کا شکار ہے اسکے مواخز اور سہولت کار کون لوگ ہیں کون سے ادارے ہیں۔ جن کی وجہ سے پاکستان کا ماضی، حال اور مستقبل خطرناک حد تک متاثر ہوا ہے۔پروفیسر صاحب کیمطابق "پاکستان کے بہت سے قومی مسائل دراصل مفاداتی اور طبقاتی مسائل ہیں۔ اور ذریعہ تعلیم کا مسئلہ بھی دراصل طبقاتی اور گروہی مفادات کا مسئلہ ہے۔ جب تک ہمارے ماہرین کا تعلق عوام کے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ رہتا ہے انہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے تحفظ اور نشونما کی فکر رہتی ہے۔ اور وہ قومی معاملات پر عوام کے دکھ درد کے حوالے سے سوچتے ہیں۔ جیسے ہی طبقہ تبدیل ہوا، طبقاتی مفادات بھی تبدیل ہو گئے۔ اور کسی کا تعلق اعلٰی طبقات کے مفادات سے پیدا ہو گیا تو پھر آپ ملکی سطح کی "چیز" نہیں رہتے۔ آپ بین الاقوامی بن جاتے ہیں۔ اور "بین الاقوامی مفادات" کی عینک ہی سے ملکی مسائل کو بھی دیکھتے ہیں"۔ گزشتہ کئی سالوں سے راقم نے ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے حکومتی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ پاکستانی تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے کام کرتے ہوئے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ کیا ہی اچھا اقدام ہو کہ ہر نئی آنے والی حکومت اپنی نئی تعلیمی پالیسیاں بنانے کیلئے مختلف اداروں سے تجاویز طلب کرنے کے ساتھ ساتھ اگر تعلیمی میدان میں کی گئی پرانی تحقیق اور ماہرین کی سفارشات اور مشاہدات کو بھی خصوصی طور پر مدنظر رکھیں۔ تاکہ مستقبل کے لئے کی جانے والی منصوبہ بندی ماضی میں کئے جانے والے کسی غلط اقدام کا شکار نہ ہو جائیں۔اس فکر انگیز تحریر کا اختتام پروفیسر وارث میر کی لکھی ہوئی ایک تجویز پر کیا جا رہا ہے جو انہوں نے اردو قومی زبان کے طور پر مستحکم کرنے کے اقدام کے طور پردی۔"دراصل ابتداء ہی میں بنگالی،سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی الفاظ اور محاوروں کو اردو زبان میں سمونے کی حکومتی سطح پر کوششیں ہونی چاہیں تھی تاکہ ملک میں ایک زبان پروان چڑھتی‘ جو پاکستان کے تمام صوبوں کی نفسیاتی اور عملی ضروریات پر پورا اتر سکتی"۔

ای پیپر دی نیشن