بڑے شہروں سے دوری ایک نعمت ہے۔ وہاں رہ کر انسان بڑے بڑے خواب دیکھ سکتا ہے۔ بڑے بڑے تخلیقی معرکے سرانجام دے سکتا ہے مگر ان معرکوں کو مسابقت کے لیے اسے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں آ کر ماضی کے ساتھ طویل وابستگی کے زور پر کچھ سال تو تخلیقی اعتبار سے اچھے گزر جاتے ہیں مگر بالآخر مسابقت کی جنگ میں الجھ کر ایک حساس فنکار کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس دوران اس کا سابقہ کام کیش ہو جائے تو اس کو مقدر کی خوش بختی تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت انتہائی تلخ ہے۔
آج ملک کے ایک بڑے مشروف ساز ادارے کی طرف سے ترتیب دیا جانے والا موسیقی کا پروگرام بھی موضوع کا ایک حصہ ہے جس میں پیش کیے جانے والے معروف گیت پہلے ہی شہرت حاصل کر چکے ہیں، مگر ان کو جدید سازوں کے ساتھ اور نئی آوازوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ ساری سرمایہ کاری ادارے کی ہے لہٰذا اس کی کاروباری ساکھ کو تو فائدہ پہنچ ہی رہا ہے ساتھ ہی معروف گیت بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنبھالے جا رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ پروگرام جب دہلی سے پیش کیا گیا تو بہت جلد بند ہو گیا تھا شاید وہ دور مکمل طور پر کاروباری نہیں تھا لیکن جب پاکستان میں بڑے شہر سے شروع کیا گیا تو بہت جلد مقبول ہو گیا۔ اس طرح کے پروگرام اس سے پہلے بھی سرکاری سرپرستی میں ’’لوک ورثہ‘‘ کی طرف سے تیار کیے گئے۔ مگر اس میں چونکہ کاروباری حوالہ نہ تھا اس لیے کامیاب بھی رہے۔ دوسری وجہ اس میں پیش کنندگان کا کوئی ذاتی مفاد نہ تھا جس کی وجہ سے غالباً ان کا معیار بھی پہلے سے بہتر رہا۔ موجودہ پروگرام میں چونکہ پیش کنندہ کا نام چونکہ ایک باقاعدہ مفاد کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ لہٰذا اس کی وجہ سے پروگرام کے معیار میں فرق آ رہا ہے جس کی طرف توجہ دلائی جانی ضروری ہے کہ جب تک معیار بہتر نہ ہوگا پروگرام کا زیادہ دیر چلنا یا اپنا نام یا مقام بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے گیت کی نئے سرے سے لکھائی ہو یا موسیقی ہو یا آواز کا انتخاب۔ بہتر معیار ہی کامیابی کی سند ہے اور یہی ایک صورت ہے کہ لوک گیتوں کو بہتر طریقے سے محفوظ کیا جا سکے۔ادبی پرچوں کی اشاعت کا کچھ معاملہ تو پچھلے ایک کالم میں دیا گیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ ادبی پرچے فنڈنگ کے بغیر نہیں چلتے لہٰذا بہتر ہے کہ فنڈنگ کا معاملہ جدید دور سے منسلک کیا جائے کہ محض سالانہ خریداری یا اشتہار اب ایسے پرچوں کی حیاتِ نو کے لیے بنیادی فیکٹر نہیں رہے۔ لہٰذا اشاعتی اداروں کی طرف سے ادبی پرچوں کی سرپرستی کا عمل جو کہ اس وقت جاری بھی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ منسلک ہونا ادبی پرچے اور قارئین کے درمیان رشتے کو مضبوط کر سکتا ہے۔لاہور میں ایک اشاعتی ادارے نے اس کا کامیاب تجربہ کیا۔ اب ایک مضافاتی لیکن اہم ادبی مرکز جہلم سے ایک ادبی پرچے کے ساتھ فنڈنگ کے رشتے نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ’’باہمی مفاد‘‘کے ایشو کو اپنی بقا کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس پرچے کے ایڈیٹر ایک جاندار شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس سے قبل وہ یہ پرچہ اپنے وسائل سے شائع کرتے رہے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک اشاعتی ادارے کے مالی تعاون کو منظور کر لیا ہے اس میں بھی معیار کا بہتر ہونا ایک اور اہم چیز ہے اور اس کی یہی صورت ہے کہ فریقین اپنی اپنی حدوں تک بااختیار ہیں ۔ پرچے کے تمام تر کام کی ذمہ داری چیف ایڈیٹر پر ہے اور کاروباری امور کی انجام دہی بھی معاہدے کے عین مطابق ہو۔اس طرح فریقین اپنی اپنی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ جیسے اس پرچے میں ہوا ہے کہ چیف ایڈیٹر نے مضامین، غزل اور خاص طور پر نظم کا بہترین انتخاب پیش کیا ہے اور اشاعتی ادارے نے ادب سے ہی متعلقہ کتابوں کے اشتہارات کو شامل اشاعت کرایاہے جن کی تعداد ایک بہترین فنڈنگ کی بنیاد بن سکتی ہے۔سیاسی طور پر معاملات اسی طرح ابتری کا شکار ہیں جب گذشتہ ہفتے تھے اس لیے گذشتہ ہفتے اس موضوع سے ’’پرہیز‘‘ کیا گیا تھا۔ حکمرانوں کے لیے بھی اس میں اشارے ہیں کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ا سے مضبوط کرنے کے لیے آپ جو غیر قانونی امور غیرآئینی اقدامات کرتے ہیں اقتدار سے محرومی کے بعد نئی حکومت آپ کے خلاف اسی نوعیت کے اقدامات کر سکتی ہے۔’’ہیروئن‘‘ تو آج کل کی ’’ہیروئنیں‘‘ ہے کسی زمانے میں بھینس بھی ہیروئن کی طرح ہی سیاسی طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ مرحوم حبیب جالب پر کڑکڑا چاقو کا مقدمہ بنایا گیا۔ بلکہ ظہور الٰہی مرحوم پر نواب آف کالا باغ کے دور میں بھینسیں چوری کا مقدمہ بنا کر ان کو بلوچستان کی حدود میں واقع جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہ سب باتیں رانا ثنا اللہ کے ہیروئن کیس سے ذہن میں آنی شروع ہوئی ہیں۔ اس طرح کے کئی واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ اقتدار سے محرومی کے بعد حکمرانوں کو اسی انداز میں ذلیل و رسوا کیا جائے جیسا کہ وہ اپنے دور میں مخالفین کو کیا کرتے تھے۔ اس اشارے کے علاوہ ہر پیشی پر وہی اہلکار تعینات ہوتے ہیں جو پہلے بھی پیسے لیتے تھے اور اب بھی پیسے لیتے ہیں۔ پہلے ان سے جو اقتدار میں نہیں تھے اب ان سے جو اقتدار میں نہیں ہیں۔ جب فریق اقتدار میں ہو تو پیسے دینے والے کئی ہوتے ہیں پر جب وہ اقتدار میں نہ ہو تو پیسے خود ہی یا کسی قریبی رشتہ دار کو ہی دینے پڑتے ہیں!!