سفر سعید

Jul 09, 2019

فاروق عادل

ادب اور صحافت کے تعلق باہم کی بحث پرانی ہوچکی لیکن اس گئے گزرے زمانے میں بھی لوگ باگ جب زے(ز)کو ذال(ذ) اور ذال کو زے لکھنے سے نہیں شرماتے تو یہ بھولا بسرا تذکرہ تازہ ہونے لگتا ہے اور اچھی صحافت کے لیے ادبی تربیت کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کی اشاعت کے بعد یہ بحث ایک لار پھر تازہ ہوگئی ہے۔دنیا میں سفر تو بے شمار لوگ کرتے ہیں، اس کے رنگ بھی دیکھتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہوتے ہیں لیکن سفر کیا ہوتا ہے اور اہل خرد اس سے کیا اور کیسے سیکھتے ہیں؟ اس کا سلیقہ سر سید مرحوم سے زیادہ کسے ہوگا۔ ہمارے اس محترم بزرگ نے اپنی سعادت بھری زندگی میں بے شمار سفر کیے ہوں گے لیکن دیار فرنگ کا سفر ایک ہی کیا اور سچ تو یہ ہے کہ کھلی آنکھوں سے کیا۔ اس سفر کے دوران انھوں نے مغربی تہذیب، صنعتی و تیکنیکی ترقی کا مشاہدہ ہی نہیں کیا بلکہ ان عوامل اور وجوہات کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش بھی کی جس نے اہل عرب کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا اور ہمارا معاشرہ پیچھے کی طرف بھاگنے لگا۔ سر سید علیہ رحمۃ کے سفر اور احوال سفر کی ایک خوبی تو یہ ہے، لیکن ان کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ عظیم مفکر اور زمانہ شناس ہونے کے باوجود ان کی آنکھ ایک بچے کی آنکھ تھی جو اس دنیا کو ہر آن حیرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اسی حیرت ہی کا کمال ہے کہ ایک معصوم، نا تجربہ کار اور اپنے گرد و پیش کی نزاکتوں سے بے خبر بچہ رفتہ رفتہ سمجھ دار اور دانش مند بن جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سرسید کی جو عظمت اور احترام ہم آپ کے دلوں میں ہے، اسی حیرت کی دین ہے۔ حیرت کے اس راز کو سمجھنا ہو تو ان کا سفر نامہ پڑھئے پھر سمجھ میں آئے گا کہ شاہراہِ ترقی و بزرگی کن راہوں سے ہو کر گزرتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے بھائی سعید آسی ایک ممتاز صحافی ہوتے ہوئے بھی ادیب ہیں اور اس سے بڑھ کرسر سید کے پیروکار ہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے ان کے سفر نامے کے مطالعے سے ہوا۔
سعید آسی سرسید نہیں لیکن شاعر اور ادیب تو ہیں، یہی خوبی انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ اب تو حالات بدل چکے ہیں، اہل اقتدار اب صحافیوں کو بیرونی دوروں پر نہیں لے جاتے یا لے جا نہیں سکتے لیکن ایک زمانے میں تو یہ ناگزیر تھا۔ سربراہان مملکت و حکومت ہی نہیں، وزرا بلکہ بڑے شہروں کے میئر بھی غیر ملکی دورے پر جاتے ہوئے صحافیوں کو بھی ساتھ لے جایاکرتے تھے۔ یہ ایک طرح کی ضرورت تھی۔ ذرا یاد کیجئے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران حکمرانوں نے کتنے غیر ملکی دورے کیے ہوں گے اور ہمارے کتنے احباب نے ان کی کوریج کے لیے رخت سفر باندھا ہوگا، تعداد گننی آسان ہے اور نہ اس کا موقع ۔ کہنا یہ ہے کہ اہل قلم کی اتنی بڑی تعداد اپنے یا سرکار کے خرچ پر بیرون ملک گئی لیکن ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے ہمیں ان دور دیسوں سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات میں شریک کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی لکھنے والا ٹمبکٹو جائے، ٹوکیویا پیرس جائے ،حتیٰ کہ چیچوکی ملیاں ہی کیوں نہ چلاجائے، اس کے مشاہدت، تجربات مسرتیں اور تکالیف قوم کی طرف سے اس پر قرض ہوتے ہیں اور اس کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم کو ان میں شریک کرے۔ اس کاپہلا سبب یہ ہے کہ وہ لکھنے والا ہے، اس ناتے سے اس کا مشاہدہ کرنے اور معاملات کو جانچنے کا طریقہ عام آدمی سے مختلف ہوتا ہے ، دوسری سب سے اہم وجہ یہ کہ اس کے ارد گرد رہنے والوں میں سے کتنوں کو ایسے مواقع میسر آتے ہیں؟ اس لیے میں نہایت ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ پڑھنے والوں کو اپنی سیر و سیاحت شریک نہیں کرتے، خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ برادر محترم سعید آسی نے اس امانت میں خیانت نہیں کی بلکہ قوم کی طرف سے خود پر عائد ہونے والے قرض کو سود کے ساتھ چکا دیا ہے۔ پہلی بار طاہر اسلم گورا کی معرفت اور اب ہمارے بھائیوں علامہ عبد الستار عاصم اور محمد فاروق چوہان کے زیر اہتمام۔
اس تمہید میں ایک اہم بات رہ گئی۔ ہمارے سیاح جب رُک سیک کاندھے پر ڈال کر سفر کے لیے نکلتے ہیں تو ان کامنہ طرف کعبے شریف کے یعنی مغرب کی جانب ہوتا ہے۔ ذرا دھیان میں لائیے، ہم نے سفر ناموں کی کتنی بڑی تعداد ترقی یافتہ دنیا کے بارے میں پڑھ رکھی ہے۔ خود میرا سفر نامہ’’ ایک آنکھ میں امریکا ‘‘بھی اسی فہرست میں آتا ہے۔ اس اعتبار آسی صاحب خوش قسمت ہیں کہ انھیں مالدیپ، برونائی دارلاسلام اور انڈونیشیا جیسے ملکوں میں جانے کا موقع ملا جن کے بارے میں ہماری معلومات اور مشاہدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک مسافر کی نگاہ کے بارے میں؛ میں سرسید مرحوم کی مثال پیش کرچکا ہوں کہ اس میں کس طرح حیرت، شوق دید، دیکھ کر سوچنے اور سوچ کر سیکھنے کی امنگ ہونی چاہئے۔ سعید آسی کے اسلوب کی تفصیل میں جا کر میں ان کے قاری کا مزہ کرکرا نہیں کرنا چاہتا صرف اتنا کہتا ہوں کہ اس باب میں وہ سرسید کے پیروکار ہیں اور اس سفر نامے کے دو سو صفحات اپنے بطن میں حیرت پر حیرت چھپائے بیٹھے ہیں۔

مزیدخبریں