اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) بدھ کو قومی اسمبلی میں سوشل میڈیا پر اقلیتوں کیخلاف مہم کی باز گشت سنی گئی۔ اپوزیشن کے رہنمائوں خواجہ آصف اور سید نوید قمر نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ روز سے پاکستان میں بھی ایک اقلیت کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جارہا ہے اور خاکے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ قابل مذمت اقدام ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ حکومت نے مندر کیلئے فنڈز نہیں جاری کئے، کچھ مذہبی اور سیاسی عناصر نے حکومت کو مندر پر زچ کرنے کی کوشش کی، ان کی درخواست وزیر اعظم کو بھیجی۔ ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ مستند علماء کرام کے بیانات ہم صرف نظر نہیں کر سکتے، آیا کہ سرکاری فنڈز سے مندر کی تعمیر ہو سکتی ہے یا نہیں یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا ہے، اس پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی ہے، کوئی بھی کام اسلام کی ہدایات کے خلاف نہیں ہوگا۔ مندر پر کام رک گیا ہے۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف خاکے بنانا قابل مذمت اقدام ہے۔ کارٹون بنانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کی مذمت کرتے ہیں، ہم اپنی اقلیتوں کی حفاظت اگر نہیں کریں گے تو کس منہ سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے، اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا ان کا حق ہے، ایوان میں حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ اقلیتوں کیساتھ ظلم برداشت نہیں کریں گے، قائداعظم کے پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائیگا۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا۔ نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان میں ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک کی اقلیتوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اگر اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھیں تو شرم کی بات ہے، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہم پر فرض ہے۔ یہاں فالٹ لائنز پیدا ہوگئیں ہیں جو خطرناک ہے، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ خواجہ آصف نے جو اقلیتوں کے حوالے سے نکتہ اٹھا یا ہے، اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اقلیتوں کو اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ آئین اقلیتوں کو حق دیتا ہے۔ اقلیتوں کا مذاق اڑانا اور عبادت گاہوں پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں، اگر ہم اپنی اقلیتوں کا تحفظ نہیں کرینگے تو کیسے دنیا میں مسلمانوں کی بات کرینگے۔ ہماری حکومت ان کیخلاف سخت ایکشن لے گی۔ اقلیتوں کیساتھ ظلم برداشت نہیں کریں گے۔ جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ہم نے اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ہے اور کرینگے۔ اسلام آباد میں آج کل مندر بنانے کا شوشہ چل رہا ہے۔ مسلمانوں کے بیت المال سے مندر کی تعمیر نہیں ہوسکتی۔ مولانا جمال الدین نے کہا کہ اسلام میں بت پوجنے والوں کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں۔ اسلام اقلیتوں کی پرانی عبادت گاہوں کی مرمت کی اجازت دیتا ہے نئی عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا، ہم خون دیں گے مگر مندر نہیں بننے دیں گے۔ پیپلزپارٹی کے غلام مصطفی شاہ نے کہاکہ سید خورشید شاہ کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ آئین ان کے حقوق کا تحفظ دیتا ہے، ہمارے نبیؐ نے عیسائیوں کے وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا ہے، وہیں پر عبادت کی اجازت دی۔ اقلیتوں کا وفد مندر کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے درخواست لے کر آیا، اقلیتی وفد کو جواب دیا ہمارے پاس فنڈز نہیں اور رولز اجازت نہیں دیتے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 28 جولائی تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت نے کراچی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر کے الیکٹرک کیخلاف کارروائی کیلئے حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ کے الیکٹرک کو اضافی بجلی دینے کو تیار ہیں لیکن ان کا سسٹم برداشت نہیں کر سکتا، کراچی میں 500 کے وی کے دو گرڈ سٹیشن اور2 ڈیلیوری پوائنٹس بنانے کی کابینہ نے منظوری دیدی ہے۔ نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن احسن اقبال نے کہا کہ کراچی میں لوڈشیڈنگ سے لوگ پریشان ہیں، ایوان نوٹس لے۔ تحریک انصاف کے فہیم خان نے کہا کہ کراچی میں کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی جاری ہے، کے الیکٹرک کے سامنے کوئی اور کمپنی لائی جائے۔ پیپلزپارٹی کے رکن نوید قمر نے کے الیکٹرک کیخلاف حکومت کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے الیکٹرک کیخلاف اقدامات کرے ہم ساتھ دیں گے۔ کے الیکٹرک کو بلائیں اور ان سے پوچھا جائے۔ مسلم لیگ (ن)کے سردار ایاز صادق نے کہا کہ کے الیکٹرک نے اربوں روپے وفاقی حکومت کے دینے ہیں، اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ پر ایوان کی کمیٹی بنائی جائے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسامہ قادری نے کہا کہ کراچی کے لوگ اسلام آباد میں دھرنا دینے کی بات کررہے ہیں، کے الیکٹرک کے 26فیصد شیئر وفاق کے پاس ہیں، کیا فیڈریشن کا کے الیکٹرک پر اتنا اختیار نہیں ہے؟ ایم کیو ایم کے صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ حیدر آباد میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ کے الیکٹرک کے ساتھ حیسکو اور سیپکو کے مسائل پر بھی توجہ دی جائے، وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیلئے کراچی سمیت ملک بھر کے مسائل برابر کے ہیں۔ معاہدہ کے تحت کے الیکٹرک کو 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دینے کے پابند ہیں، اس وقت 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس اضافی دی جا رہی ہے، کے الیکٹرک نے ابھی تک سسٹم کو اپ گریڈ نہیں کیا، کراچی کو 100 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ سے بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں کے گرائونڈز عوام کیلئے کھولنے کی مخالفت کردی۔ اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن علی نواز نے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں کے گرائونڈز شام کے اوقات میں واک کیلئے کھولنے سے متعلق توجہ دلائونوٹس پیش کیا جس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری تعلیم وجہیہ اکرم نے کہا کہ عام عوام کیلئے گرائونڈز کھولنے سے متعلق تعلیمی پالیسی اجازت نہیں دیتی۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ دنیا بھر میں کسی بھی سکول میں باہر کے لوگوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی،کوئی جگہ بتادیں جہاں کوئی سکول بھی عام عوام کیلئے اوپن ہوں ،ماضی میں ہمارے سکولوں پر حملے ہوچکے ،اگر عوام کیلئے گرائونڈز کھول دیں تو کوئی شخص وہاں چھپ کر بیٹھ جائے اور کچھ ہوجائے اسکا کون ذمہ دار ہوگا؟ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سکول کے گرائونڈز عوام الناس کیلئے اوپن کر دیئے جائیں۔