اسلام آباد (نامہ نگار) سندھ روشن پروگرام میں مبینہ کرپشن کیس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نیب راولپنڈی کے دفتر میں پیش ہو گئے۔ وزیراعلیٰ نے نیب کے 19 سوالات پر وضاحتی جواب جمع کروا دیا۔ نیب حکام نے وزیراعلیٰ سندھ سے ایک گھنٹے تک تفتیش کی۔ مراد علی شاہ نے سندھ روشن پروگرام کو شفاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصوبے میں کسی قسم کی کرپشن نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیر خزانہ 9 کروڑ روپے رشوت لیکر 4 ارب روپے کے سٹریٹ لائٹس ٹھیکے مختلف کمپنیوں کو دیئے۔ راولپنڈی میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں 17 جون کو بجٹ پیش کرنا تھا 18 کو آنا ممکن نہ تھا۔ نیب نے جواب دیا کہ آپ کی درخواست مان لی ہے اور 8 جولائی کو جواب جمع کرائیں، نیب میں جواب جمع کرا دیا اس پر کچھ وضاحت مانگی گئی جواب دے دیا۔
اسلام آباد (نامہ نگار) راولپنڈی میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ علی زیدی کی بات نہ کریں انہیں لوگ غیر دستخط شدہ کاغذ گیٹ پر دے جاتے ہیں اور اگلے دن وہ اسے صحیفے مان کر باتیں کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ عزیر بلوچ کو رینجرز نے گرفتار کیا تھا اور اس وقت موجود قانون کے تحت رینجرز نے اسے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 90دن تک تحویل میں رکھا تھا۔ اس کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنی تھی۔ جس میں سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور رینجرز کے نمائندے شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعلی نے جے آئی ٹی بنائی تھی جے آئی ٹی میں شامل 7افراد نے اپنے اصل دستخط کے ساتھ اصلی جے آئی ٹی رپورٹ محکمہ داخلہ کو جمع کروائی تھی جو محکمہ داخلہ میں موجود ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ یہ جے آئی ٹی ایک مرتبہ پہلے عدالت میں جمع کروائی گئی تھی جسے عدالت نے دیکھنے کے بعد واپس کردیا تھا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی ایک ہوتی ہے، کئی نہیں ہوتیں، اصل جے آئی ٹی رپورٹ محکمہ داخلہ میں موجود ہے۔ محکمہ قانون اور ایڈووکیٹ جنرل کرمنل پروسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے جے آئی ٹی رپورٹس جاری نہ کرنے کی تجویز دی تھی کیونکہ اس میں جس کا بھی نام ہوگا وہ سب ہوشیار ہوجائیں گے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ بدقسمتی سے علی زیدی نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر دستخط شدہ کاپی، جسے وہ خود کہہ رہے کہ غیر دستخط شدہ ہے، اسے پڑھنا شروع کردیا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس سے ہم پر سیاسی دبائو آیا پھر میں نے ایڈووکیٹ جنرل سے بات کی کہ سیاسی دبائو کی وجہ سے ہمیں جے آئی ٹیز جاری کرنی پڑیں گی۔ علی زیدی نے غیرذمہ دارانہ حرکت کی اور اب کہتے ہیں کہ 3جے آئی ٹیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز علی زیدی نے ایک پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ کوئی موٹرسائیکل پر آیا تھا اور چوکیدار کو کاغذ دے کر گیا تھا، اللہ انہیں عقل دے کوئی ذمہ دار آدمی اتنے اہم کیس میں ایسی غیر ذمہ داری نہیں دکھاتا جتنی غیر ذمہ داری علی زیدی نے دکھائی۔ اس میں مجھے یہ لگتا ہے یہ میری رائے ہے کہ وہ ملزمان کو فائدہ پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی زیدی نے کہا کہ اصل جے آئی ٹی میں 7لوگوں کے دستخط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی زیدی اگر موٹرسائیکل پر کاغذ دیے جانے کی بات پہلے بتادیتے تو ہم جے آئی ٹیز جاری نہیں کرتے بلکہ صرف ہنستے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں، میں نے ایک انٹرویو سنا جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے، ضیاء الحق نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی، پرویز مشرف نے ختم کرنے کی کوشش کی اور وہ نہیں ہوئی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے ایک بار پھر سندھ حکومت کی جانب سے جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس کے معاملے چیف جسٹس آف پاکستان سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ علی زیدی نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق چیئرمین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ پر چھ میں سے پانچ جے آئی ٹی ممبران کے دستخط ہیں اور رپورٹ کے آخری صفحے پر چھ میں سے 4 ممبران کے دستخط ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ نثار مورائی کی جے آئی ٹی کو قبول کیا جائے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پر چھ میں سے چار ممبران کے دستخط ہیں۔ جے آئی ٹی کے دوسرے صفحے سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ دو حصوں میں ہے۔ پیپلز پارٹی اس جے آئی ٹی کی صداقت مشکوک بنا رہی ہے۔ علی زیدی نے کہا ہے کہ نثار مورائی کی جاری آفیشل مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے صفحات پر 6 میں 5 ممبران کے دستخط ہیں ۔ نثار مورائی کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے آخری صفحے پر 6 میں سے 4 ممبران کے دستخط ہیں، پیپلز پارٹی چاہتی ہے نثار مورائی کی جے آئی ٹی کو قبول کیا جائے، انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی جے آئی ٹی کی صداقت پر شکوک بڑھارہی ہے۔