قومی اسمبلی میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے عجلت میں دئیے گئے اس بیان کے بعد کہ ’’پی آئی اے‘‘ کے 260پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں‘‘۔ ناصر ف پاکستان، بلکہ پوری دنیا میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑ گئی۔ یورپی ملکوں بشمول امریکہ نے اپنے ایئر پورٹس پر پی آئی اے کے جہازوں کی آمد و رفت پر چھ ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی۔ غلام سرور خاں نے کراچی میں کریش ہو جانے والے پی آئی اے کے جہاز کے تناظر میں یہ بیان جاری کیا۔ کیا بیان کا یہ موقع اور فورم مناسب تھا؟ اس پر کافی بات ہو رہی ہے۔ وزیر ہوا بازی نے بیان تو دے دیا لیکن اس الزام کی کوئی تحقیق اور تفتیش نہیں کی کہ وہ جن پائلٹوں کی بات کر رہے ہیںحقیقت میں وہ کیا واقعی غیر تربیت یافتہ ہیں۔ جعلی ڈگریوں اور فیک دستاویزات پر بطور پائلٹ پی آئی اے میں آخر کیسے بھرتی ہو گئے؟ جعلی لائسنسوں کے تناظر میں تحقیقات کے بعد بیان دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ بھارتی اور یورپین میڈیا، خصوصاً سی این این نے اس موضوع کو لے کر کئی پروگرام کر ڈالے ہیں، پاکستان کے حصّے میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آیا۔پائلٹوں کی تنظیم ’’پالپا‘‘ کے ترجمان کا بیان سن لیں تو اُس سے بھی کئی باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ معاملہ بھی کافی مشکوک اور غور طلب بن جاتا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومتی وزیر نے بیان دینے سے قبل ’’پالپا‘‘ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ پائلٹوں کے فیک لائسنسوں کی لسٹ جاری کرنے سے پہلے ہی وزیر ہوا بازی کی جانب سے اس قسم کے بیان کا آنا اُن پائلٹوں کے لیے بھی شرمندگی اور پریشانی کا باعث بنا ہے جو درست دستاویزات اور ڈگریوں کے ساتھ سول ایوی ایشن کا امتحان پاس کر کے پائلٹ کے منصب تک پہنچے تھے۔ بہتر ہوتا کہ پہلے یہ تصدیق کر لی جاتی کہ پی آئی اے کے پائلٹوں میں فیک لائسنسوں والے کون ہیں؟ پھر نا صرف کارروائی کی جاتی بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی قائم ہوتے۔’’پالپا‘‘ کے ترجمان کے مطابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے بیان کے بعد جعلی لائسنسوں والے پائلٹوں کی جو فہرست جاری کی گئی ، اُن میں سے بیشتر پائلٹ فوت ہو چکے ہیں یا ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف 19پائلٹ ایسے ہیں جو فیک لائسنس ہولڈر ہیں۔ اُن کو پہلے ہی گرائونڈ کر دیا گیا ہے۔ پی آئی اے کی مالی حالات پہلے ہی کچھ اچھے نہیں تھے، کئی سالوں سے وہ شدید ترین مالی خسارے کا سامنا کر رہی ہے۔ اس کو بیچنے کی بھی بات ہوتی ہے تاکہ یہ مالی بحران سے باہر نکل سکے۔ گزشتہ سیاسی ادوار میں جس تیزی سے پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میرٹ کو پس پشت ڈال کر سیاسی حکومتوں اور اُن کے وزیروں نے اپنے منظور نظر افراد کو خطیر تنخواہوں پر پی آئی اے میں بھرتی کیا جس سے اس اہم قومی ادارے کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ میرٹ کے برعکس پی آئی اے میں بھرتیاں کرنے کاالزام پیپلز پارٹی کے علاوہ ن لیگ پر بھی ہے۔ جعلی لائسنس والے پائلٹ بھی اُنہی کے ادوار میں بھرتی ہوئے لیکن ذمہ دار صرف سیاسی حکومتیں نہیں، سول ایوی ایشن کے اعلیٰ حکام بھی ہیں کیونکہ پائلٹوں کی لائسینسنگ اتھارٹی وہی ہے۔حکومت نے جعلی لائسنس کے حامل مشتبہ پائلٹوں کی ایک فہرست تو جاری کر دی ہے لیکن ابھی اُن کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کیا۔ غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات ہوئیں تو ثابت ہو جائے گا کہ اس سارے قصے میں کون کون لوگ شامل ہیں۔ وہ سیاسی افراد ہیں یا سول ایوی ایشن کے لوگ۔ جو بھی اس زد میں آتا ہے اور جس پر بھی جعلی لائسنسوں والے معاملے میں شامل ہونے یا کسی قسم کی مدد کا الزام ثابت ہوتا ہے تو انہیں ضرور نشانِ عبرت بننا چاہیے۔آج اگر ایک قومی ادارہ تباہی کے دہانے پر ہے تو اس کے تمام ذمہ داروں کو ضرور قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔جب آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے تو ایئر بلو کے جہاز بھی گرے تھے اور بہت جانی نقصان ہوا تھا۔ میاں نواز شریف کے دور میں وہ طیارہ بھی گرا تھا جس میں مذہبی سکالر جنید جمشید بھی سوار تھے ان دونوں سانحوں پر متعلقہ وزراء نے افراتفری میں پائلٹوں کے خلاف ایسے بیانات نہیں دئیے تھے کہ دنیا بھر میں ہماری فلائٹس پر پابندی لگتی۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ہماری فلائٹس دنیا بھر میں چلتی رہیںاور پی آئی اے خسارے سے بچ سکے۔ اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ پی آئی اے کی فلائٹس کو PAF کے تربیت یافتہ پائلٹس کے حوالے کر دیا جائے تاکہ PIAکی رسائی یورپ اور امریکہ تک ہو سکے تاکہ اسے وہ کمرشل base پر چلا سکے اور اس کا خسارہ کم کر کے اسے منافع بخش ادارہ بنایا جا سکے۔
پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں کا معاملہ
Jul 09, 2020