ملّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور…

ضیاء الحق کے دور آمریت میں ملوکیت اور ملائیت یکجان اور یک قالب ہو کر رہ گئی تھیں۔ اسلام کے نام پر ملائیت کی بزور شمشیر ترویج و اشاعت کے خلاف ہمارے دانشوروں کا رد عمل سیکولرزم یا کمیونزم کے نام پر اسلام فراموشی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں وارث میر نے اسلام کی حقیقی انقلابی روح کو آشکار کرتے چلے جانے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ انھوں نے اقبال کے طرز و عمل کو اپنا سر چشمہ فیضان بنا کر ملائیت کو اسلامیت اور انسانیت کے حقیقی مفہوم سے آگہی بخشی اور ملائیت کا کلمہ پڑھنے کی بجائے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بیان کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔انھوں نے یہ بر محل سوال بر وقت اٹھایا تھا کہ: ’’اس اسلام کا علمبردار، اب پاکستان میں کون رہ گیا ہے جو عارضی جنگی محاذ پر نہیں ، زندگی کے عملی میدان میں بھی اشتراکیت اور سرمایہ داری کا مقابلہ کر سکے گا؟ آپ نے کبھی غور فرمایا! پاکستان میں جب کبھی خواہ مختصر عرصے کے لیے اسلام کے نعرے اور بعض مذہبی اجارہ داریوں کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے، مسجدوں کے خطبوں میں فرقہ پرستی کہ ہوا دی گئی، فرد گی اور گروہی اختلاف پر تحقیقی کتابوںاور پمفلٹوں کا سیلاب آ گیا اور مستقبل اور مستقبل کے چیلنج مناظرانہ تفسیر و تعبیر میں کھو گئے۔ کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ تو ہمات و ضعیف الاعتقادیوں کی بنیاد پر اس کے سیاسی نظام کو استوار کیا جائے؟ امریکہ کے چند مولوی آئیں اور پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستانی قوم کی سیاسی رہنمائی فرمائیں کہ 1977ء میں انھیں خواب میں بشارت ہوئی تھی کہ ایک،خاص نام کا فرقہ پاکستان میں اسلام نافذ کرے گا؟‘‘وارث میر نے ان مذہبی اجارہ داریوں کے سامراجی سرپرستوں کی نشاندہی میں بھی انتہائی جرأت ِاظہار کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ اپنے قارئین کو بروقت خبر دار کرتے ہیں:
’’پاکستان کے قریب قریب تمام حکمران مغربی مفادات کے نیاز مند رہے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو ان کی Durabilityکے مطابق ، یہ مفادات۔۔۔ مناسب اور نا مناسب ہر طریقے سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ سب لوگ امریکہ کی آشیربادسے تخت حکمرانی پر بیٹھے اور اسی کے اشارئہ ابرو سے محروم اقتدار بھی ہوتے رہے۔ سیاستدانوں کی حکومت امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں میں شریک تو ہو گئی تھی البتہ امریکی وزارت خارجہ کی دستاویز ات شہادت دیتی ہیں کہ سیاستدان وزیر اعظم ، پاکستان کی سر زمین کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا مسئلہ قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کی بات بھی کرتے تھے۔ اسی لیے پاکستان میں فوجی جرنیلوں کو بر سر اقتدر لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اب تک یہ منصوبہ کامیاب جا رہا ہے۔ درمیان میں تھوڑے عرصے کے لیے بھٹو کی سول حکومت اور ان کے غیر معمولی عزائم ، کباب میں ہڈی بن گئے تھے اور اس ہڈی کو نکال پھینکنا بہت ضروری ہو گیا تھا۔‘‘
مغربی دنیا نے بلاشبہ اسلام کی حقیقی روح کی بیداری کے اندیشہ ہائے دور دراز کے پیش نظر ملائیت کی سر پر ستی جاری رکھی ہے۔ اقبالؒ نے اپنے درس خودی میں ہمیں یہ سمجھایا تھا کہ ملائیت کے رد عمل میں اسلامیت کو ترک کر دینے کی بجائے اسلام کی انقلابی روح کو بیدار اور سر گرم کر دینے میں کوشاں ہو جانا درست عمل ہے۔ اقبال کے مطابق ملا کی وجہ سے مسجدکو ترک کر دینا سراسر غلط ہے۔درست عمل یہ ہے کہ اپنے انقلابی افکار سے ملا کا دل پگھلا کر اسے اسلام کی حقیقی ر وح سے آگہی بخشی جائے۔ وارث میر نے یہی طرز عمل اختیار کیا۔ تاہم دکھ کے بات یہ ہے کہ وارث میر کو نہ مولوی تسلیم کرتے ہیں نہ سو شلسٹ اور نہ کمیونسٹ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو اولیت دیتے ہیں، اسلام کی سچی انقلابی راہ پر چلتے ہیں، قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی پیروی کرتے ہیں اور صرف انقلاب کے نام کو استعمال نہیں کرتے، ان کو مفاد پرست طبقات کبھی تسلیم نہیں کرتے۔
17 دسمبر 1982ء کے کالم بعنوان ’’ نئے خیالات کیونکر خطرناک؟‘‘ میں وارث میر سوال اٹھاتے ہیں کہ: "پاکستان کا تصور پیش کرنے والے اقبالؒ اور پاکستان کی جنگ جیتنے والے محمد علی جناحؒ کے تاریخی کردار او ر خدمات کی حفاظت کون کرے گا؟ اب پاکستان پر یہ وقت آن پڑا ہے کہ یار لوگ جناح سے قائد اعظمؒ اور اقبالؒ سے حکیم الامت کا اعزاز چھین لینا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور قائد اعظمؒ کی جمہوریت و آئین پسندی اور اقبالؒ کی روشن خیالی کا دور نہیں ہے۔ یہ دور تو صاحبان جبہ و دستاراور اصحاب منبر و محراب کا دور ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمہیں بیرونی نفس یا اندرونی نفس کا شیطان گمراہ کر رہا ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اس لیے تھا کہ مسٹر اور ملا کی تمیز ختم کی جائے۔ ہم ایک ایسا حسین و جمیل معاشرہ پروان چڑھانا چاہتے تھے جس میں قائداعظمؒ کی جمہوریت پسندی ہو تو اقبالؒ کا فکر و فلسفہ بھی ہو، مسجد بھی ہو اور محراب و منبر بھی ہو ،جس میں قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے مقام و مرتبہ کا بھی احترام ہو اور ان کے ناقدوں اور ان ناقدوں کے مریدوں کی عزت نفس بھی محفوظ ہو۔ پاکستان نفرتوں کوختم کرنے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا، نفرتوں کے شعلوں کو ہوا دینے کے لیے نہیں‘‘۔
مجھے آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے جیسے وارث میر ہم سے اب بھی یہی سوال پوچھ رہے ہوں۔ آپ اس سوال کا جواب سوچئے میں اتنے میں آپ کو حبیب جالب کی نظم بعنوان’’ وارث میر کے نام ‘‘ کے دو شعر سنا دیتا ہوں:
لفظ اس کا تیر تھا باطل کے سینے کے لیے
اہل حق کا قافلہ سالار وارث میر تھا!
ظلم سہتا تھا کہتا نہیں تھا ظلمت کو ضیاء
آنسوئوں کو پی کے نغمہ بار وارث میر تھا
٭…٭…٭

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن