ــ’’گیا وقت ہاتھ نہیں آتا ـ ‘‘کتابوں کے کسی ورلڈ فیمس ڈائیلوگ کی مانند محسوس ہوتا تھا۔ صرف لفظی معنی ہی پتہ تھے اس لائن کے کیونکہ اس جملے کی زندگی سے آشنائی نہ ہوئی تھی ۔ وقت پر لگا کر کہاں اڑ گیا پتہ ہی نہ چلا ۔ کب ہم معصومیت کے اس چھوٹے سے دور سے نکل کے جوانی کے عہد میں داخل ہوگئے اور ذمہ داریوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے ۔ سوچو تو جیسے ـ"بچپن" خواب سا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں نیند آئی وہاں سوگئے ۔ جب اور جہاں دل کیا رو دیئے، جی بھر کر ہنس لیئے ، نہ وقت کی پرواہ ، نہ کچھ پانے کی فکر اور نہ کچھ کھو دینے کا ڈر ۔ اسوقت دل کرتا تھا کوئی ایسی دوا پلا دے جس کو پیتے ہی ہم فوراـ بڑے ہوجائیں ہمارے قد اونچے اونچے ہوجائیں ، بڑے ہوئے تو پتہ چلا ایک بچپن ہی تو تھا جو صرف اپنا تھا۔
بچپن جیسا بھی گزرا ہو یا د ہمیشہ رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی خوشیاں محسوس ہوتی تھیں ۔ ماں کی گود کی خو شبو، باپ کے کندھے سے لگ کے سوجانے کا مزا۔ بے دھڑک اور بے ساختہ کسی بھی خواہش کا اظہار، بہن بھائیوں سے لڑنا اور لڑ کے بھول جانا پھر سے ایک ہو جانا۔ مٹی میں کھیلنا اور بادلوں کی گڑ گڑ اھٹ سنتے ہی آسمان تاکنا اور زمین پر آنے والی پہلی بوند وں کا مزہ اپنے چہرے پہ لینا ۔ ان میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کی لذت ہم اپنی یادوں میں آج بھی محسوس کر سکتے ہیں۔
انسا ن کا بچپن اسکے خیالات کی دنیا کا مجموعہ ہوتا ہے"World of Imagination" کیونکہ اسوقت ہمارا حقیقی زندگی سے تعارف نہیں ہوا ہوتا ۔ اسکے بعد یہ ماحول اور حالات ہمیں حقیقت سے اتنا متعارف کروا دیتے ہیں کہ ہمارے ہر خیال پہ ایک کے بعد ایک مہر لگتی چلی جاتی ہے اور ہم مکمل طور پر ایک عملی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور کیا ہے یہ عملی زندگی ہمارے نزدیک؟ ہم اتنا اور اسقدر کمانے لائق ہوجایئں کہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک اچھے لائف اسٹائل میں زندگی گزار سکیں۔ اس سارے معاملے میں ہمیں اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے یہ مرحلہ تو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
میں اپنے بچپن میں کہانیوں کی سی دنیا میں زیادہ رہا کرتی تھی۔ الہ دین کے چراغ میں سے نکلنے والے جن سے زیادہ مجھے اس اڑنے والے قالین میں دلچسپی تھی۔ رات کو نیند آنے سے پہلے ۲۰ سے ۱۵ منٹ اس قالین کی سیر کا سفر میرے لئے کبھی نہ پوری ہونے والی کسی بہت بڑی خواہش سے کم نہ تھا۔ جو سب کے سو جانے کے بعد آدھی رات کو کمرے کی کھڑکی سے آکر لگتا ہے مجھے اڑا کے پورے شہر کی سیر کراتا ہے اور سورج کی پہلی کرن پڑنے سے پہلے مجھے واپس چھوڑ جاتا ہے۔ مجھے اسوقت بھی معلوم تھا یہ ممکن نہیں اور آج بھی لیکن یہ خیال مجھے خوشی ضرور دیتا تھا۔
بچے بہت سادہ اور معصوم ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرنے والے اور سوالات کا ایک بڑا ذخیرہ ذہن میں لئے ہر عمل کے بارے میں متجسس رہنے والے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں میرے بڑے بھائی کو تجربات کرنے کا بہت شوق تھا اور میرے ابو ہمیشہ انکو اپنے تجربات سے سکھا نے کی کوشش کیاکرتے تھے۔ مشہور سائنس دان Albert Einstein کہتے ہیں۔
"Imagination is more important than Knowledge"
میرے بچے کو میرے تجربے کے مطابق بنا نقصان اٹھائے کام کرنے کا سہی طریقہ ضرور پتہ چل سکتا ہے لیکن یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہی کام اور بھی کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے اور کتنے طریقوں سے نہیں ہو سکتا اور یہ کہ اگر کوئی کام الٹا ہوجائے تو اسے سیدھا کیسے کرنا ہے؟
آپ کی affordability یہ ہرگز decide نہیں کرتی کہ آپکی زندگی میں آپکے کتنے بچے ہونے چاہئیں ہیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ انکو اپنا کتنا وقت دے سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کو سب کچھ فراہم کردینا آپکو اچھے والدین کہلانے کا تمغہ نہیں دلاتا۔ انکو آپکے وقت کی ضرورت ہے اس فیملی ٹائم کی ضرورت ہے جو انکی اچھی پرورش اور دماغی صحت پر برآہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور انتہائی مثبت اثرات چھوڑتا ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ آپ کی اولاد آپ کے طے شدہ معیار پہ پوری اترے ۔ آپ کے ذہن میں وہ معیار اگر ۱۹۶۰ سے لے کر ۱۹۹۰ کا ہے تو آپ کے بچے اس دور میں جینے کے لئے نہیں بنے۔ کیا پتہ وہ آ پ کے معیار سے کہیں زیادہ آگے ہوں۔ ان کو زندگی کے اتار چڑھاؤ ضرور سیکھا ئیں ، اچھائی برائی کا فرق ضرور بتائیں۔ زندگی گزارنے کے طور طریقے ضرور سکھائیں ۔ لیکن انکو آنے والے کل کے خوف سے اتنا مت ڈرائیں کے وہ اپنی زندگی ہی جینا بھول جائیں ۔ ہر کیا جانے والا کا م کسی نفع اور نقصان کی خاطر ہونا ضروری تو نہیں، بعض باتوں سے خوشی ملتی ہے اور جو خوشی کسی متوقع بدلے کے عوض حاصل ہوئی ہو وہ انمول ہوتی ہے۔
اپنے بچوں کے بچپن میں اپنا بچپن محسوس کریں ۔ انکے ساتھ وقت گزاریں۔ انکے معصوم سوالوں کے جواب دینا۔ انکے ساتھ کھیلنا ۔ انہیں ماحولیات سے رابطے میں رہنے سکھائیں۔ انہیں اپنی زندگی جینا سکھائیں ۔ وہ خود دل کھول کے جیئں گے تو دوسروں کو بھی جینے دیں گے۔ورنہ اپنی زندگی تو خراب کریں گے ہی لیکن دوسروں کا جینا بھی دوبھر کردیں گے۔