لوگ کہتے ہیں انسان مٹی کا پتلا ھے اس میں جان ڈال دی گئی وہ بولنے لگا، منطق پڑھنے والے کہتے ہیں انسان ایسا جاندار ھے جسکو عقل عطاء کی گئی جس سے وہ برے بھلے کو پہچانتا ھے اور سوچ سمجھ کر نتیجے اخذ کرتا ھے چیزیں ایجاد کرتا ھے لیکن سوال یہ ھے کہ دنیا میں تو جاندار اور بھی ہیں؟ انسان کا درجہ ان سب سے اونچا کیوں ھے، کیا صرف عقل کی وجہ سے؟ اگر اس کی بڑائی صرف عقل کی وجہ سے ھے تو پھر تو یہ تمام جانداروں پر قبضہ جماتا ھے، دنیا کی ہر ایک چیز کو اپنے تصرف میں لے آتا ھے۔ کسی کو کاٹتا ھے کسی کو توڑتا ھے کسی چیز کو جلاتا ھے کسی چیز کو پگھلاتا ھے سمندروں میں تیرتا ھے فضا میں اڑتا ھے اور چاند تاروں پر بھی قبضہ جمانا چاہتا ھے تو اس کا یہ قبضہ اور تصرف کہاں تک درست ھے، کیا یہ جبر و قہر اور ظلم نہی ھے؟ کیا یہ قبضہ غاصبانہ اور تصرف ظالمانہ نہی ھے؟ کیا اسکو عقل اس لئے دی گئی ھے کہ وہ ظلم جبر و قہر کرسکے- اس عقل کو ہم نعمت اور رحمت مانیں یا عذاب اور مصیبت سمجھیں کہ ساری مخلوق کو اپنے شکنجے میں کس رھی ھے لیکن منطق اس کا کوئی جواب نہی دیتی۔ قرآن شریف میں اسکا جواب موجود ھے قرآن پاک ہمیں بتاتا ھے کہ تمام مخلوق کو ایک پیدا کرنے والا - اس نے اپنی مرضی سے اس تمام مخلوق کو پیدا کیا زمیں آسمان چاند سورج سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ھیں جس کو جیسا چاہا بنادیا اور اپنے کام پر لگا دیا اس کو عقل اور سمجھ دی علم دیا، اس طرح اس نے پوری کائنات میں انسان کو اپنا نائب بنا دیا ( سورہ بقرہ 2 آیت: 30 ) اس نے انسان کو ایسی طاقت اور صلاحیت بخش دی کہ ہر وہ چیز پر قبضہ کرسکے اور اسکو اپنے کام میں لے آئے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں اسکے لئے مسخر کردیں ( سورہ جاثیہ آیت : 13 ) پس انسان کا یہ قبضہ جابرانہ اور غاصبانہ نہی ھے- مختصراّ انسان کی یہ حقیقت قرآن پاک نے بتلائی ھے کہ اسکی بڑائی صرف عقل کی وجہ سے نہی ھے بلکہ اس لئے ھے کہ اسکو نیابت کا منصب عطاء کیا گیا ھے- یہ ہمارا بدن جس کو ہم مٹی کا پتلا کہتے ہیں کیا یہی انسان ھے ہر شخص جواب دے گا یہ انسان نہی ھے یہ صرف قالب ھے انسان کچھ اور ھے- یہ قالب گھٹتا ھے بڑھتا ھے پرانا ہوجاتا ھے کبھی اس کا کوئی حصہ کٹ جاتا ھے مثلاّ ایوب جس کا وہ قالب ھے وہ نہی بدلتا ، ایوب بچپن میں بھی ایوب تھا جوانی میں بھی ایوب ھے اور بڑھاپے میں بھی ایوب ہی رھے گا- ایوب انسان ھے یہ جب بھی تھا جب مٹی کا پتلا اس کا قالب نہی بنا تھا اور جب بھی رھے گا جب مٹی کا قالب اس سے علیحدہ ہوجائیگا - لوگ کہتے ہیں بہت خفیف سا قطرہ یا کیڑہ تھا ماں کے پیٹ میں اس نے بڑھنا شروع کیا پیدا ہوا جوان ہوا پھر بوڑھا ہوگیا یہ زندگی ھے مگر یہ تو اس قالب کی سرگذشت ھے- ایوب جسکو ہم انسان کہتے ہیں وہ تو کچھ اور ھے جب یہ قالب ختم ہوا تو کیا ایوب بھی گیا موت صرف قالب کی آئی فنا صرف قالب ہوا یا انسان بھی فنا ہوگیا؟ دنیا میں جو بھی مذہب ھے وہ یہی کہتا ھے کہ ایوب فنا نہی ہوا، موت کا مطلب ھے کہ ایوب اپنے خاکی قالب سے جدا ہوگیا ، موت انتقال ھے یعنی ایوب ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہوگیا موت فنا نہی ھے- اچھا اگر موت فنا نہی ھے اور ایوب مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ھے تو اس بقا کا نام کیا ھے؟ مرنے کے بعد باقی رھے گا تو کہاں رھے گا کسطرح رھے گا آرام سے یا تکلیف میں، تکلیف ہوگی تو کس طرح ہوگی، موجودہ زندگی کا تعلق اس سے کیا ہوگا ؟ موجودہ زندگی کا تعلق اس سے ہوگا تو کیا ہوگا؟ اس زندگی میں جو کچھ کیا ھے اس کا کوئی اثر موت کے بعد ہوگا اگر اثر ہوگا تو کس عمل کا ہوگا؟ اگرچہ ہماری عقل اور سمجھ کا تقاضا ھے کہ جہاں ہمیں پہنچنا ھے وہاں کی باتیں معلوم کرلیں اور رات کی اندھیری ختم ہونے کے بعد جو کل کا دن آنے والا ھے اس کا انتظام آج ہی کر لیں تو بہتر ھے اور پہلی فرصت میں وقت نکال کر اور اگر فرصت نہی تب بھی ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے چاہئیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے مشاہدہ کی سب سے بڑی چیز آفتاب ھے، آفتاب نکلتا ھے چڑھتا ھے غروب ہوجاتا ھے ہم روز بلا ناغہ مشاہدہ کرتے ہیں مگر آفتاب گھوم رہا ھے یا زمین، ہمارا مشاہدہ ھے کہ آفتاب گھوم رہا ھے ہم چاند ستاروں کو نکلتے چھپتے دیکھتے ہیں دنیا کے بڑے بڑے علقمند اسی مشاہدہ پر بھروسہ کرتے ہیں اسی مشاہدہ کی بنائ پر انہوں نے ہیئت اور نجوم جیسے فنون ایجاد کئے ہزاروں برس تک ان فنون کی دھاک بیٹھی رھی بڑی بڑی حکومتوں نے ان فنون کی سرپرستی کی بیشمار دولت ان فنون کی ترقی پر استعمال کی گئی لیکن اب تحقیق یہ ھے کہ جو کچھ تھا وہ سب غلط تھا جو مشاہدہ تھا وہ حقیقت نہی تھا فریب نظر تھا اور گھومنے والا آفتاب نہی بلکہ زمین گھوم رہی ھے- ہماری عقل سب کچھ جانتی ھے مگر یہ نہی جانتی خود عقل کیا ھے اور ہماری جان کی حقیقت کیا ھے؟
فنا اور بقاء … حقیقت و مشاہدہ
Jul 09, 2022