ماضی کی تلخیاں اورتاریکی مستقبل کیلئے مینارنور… ( 1)


 ہمدردی اور غیرت ملی پر ایسا شب خون مارا کہ ہم سب کچھ لٹا کر تہی داماں رہ گئے۔ آزادی کے ابتدائی ماہ سال اگرچہ عسرتاور تنگدستی میں گزارے لیکن ہم ایک آزاد قوم ضرور جانے جاتے تھے اور ایک آزاد پاکستانی کی حیثیت سے اپنے تشخص کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے اس عمل میں شاہد اس قیادت کا بھی بڑا فعل تھا جن کی سوچ اور عمل ذاتی مفادات سے بالاتر بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ان کے اثاثے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے اپنے اور دور اقتدار میںایک فالتوبتی کا بٹن دباکر  اس کمرے کی بتی بند کردیا کرتے تھے جو کسی کے استعمال میں نہ تھی ۔ مخلص  اور دیانتدار قیادت سے جوں جوں یہ ملک اور قوم محروم ہوئی جاگیردار اور وڈیروںنے اس پر قبضہ جما لیا پھر نا اس ملک میں عدلیہ، مقننہ ، افسرشاہی اور انتظامیہ محفوظ رہ سکی۔ لیاقت علی خان  کے بعد نظریہ ضرورت کا فلسفہ کھل کر میدان عمل میں عملی اور علی الاعلان اپنی کارگزاریوں کے ساتھ ان تمام مفاد پرستوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ وقت کا بے لگا گھوڑا سرپٹ دوڑا چلا جارہا تھا حالات کے تقاضے تیزی سے تبدل ہورہے تھے مفاد پرستوں کی فوج ظفر موج کی ریشہ دوانیاں عروج پر پہنچ گئیں تھیں اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھاتے اکتوبر 1958کو اسوقت کے چیف آف سٹاف جنرل ایوب خان نے تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا کر پہلا باضابطہ مارشل لاء لگا دیااور تمام سیاسی سرگرمیون پر پابندی عائد کردی اور تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہان کو EBDOکے تحت دی۔ایوبی مارشل لاء کے ابتدائی ایام اور ایک طرح سے مروجہ قوانین کو عوام الناس نے عافیت سمجھ کر قبول کرلیا۔ اس وقت کے ملکی حالات کے پیش نظر اس اقدام سے عوام کو ذخیرہ اندوزوں، مافیاز اور مفاد پرستوں سے اگرچہ نجاتبھی ملی تھی لیکن آہستہ آہستہ آمریت کا زوربھی مفاد پرستوں، وڈیروں، افسرشاہی اور خوش آمدیوں کے سامنے دم توڑ گیا۔ آمریت نے جمہوریت کے پردے میں خود کو چھپا نے کیلئے نظریہ ضرورت کے فیصلوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔ شوق حکمرانی نے ایوب خان کو بھی سیاست کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور کردیا۔ انہی حالات میں ستمبر 1965؁ کی جنگ آغاز ہوا یوں ایک مرتبہ پھر قوم متحد ہو کر ہندوستان کی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ اپنی افواج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے قوم کا اتحاد اور جذبہ دیدنی تھا۔ افواج پاکستان کو بھی ایسی ہمت اور طاقت ملی کہ دشمن کے دانت کھٹے کردئے۔ پاکستان کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس نے افواج پاکستان کے ساتھ ہر محاذ پر صف اول میں رہ کر ہمت نہ بندھائی ہو۔ بچے بوڑھے جواں رضاکاران افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ 65کے ملی نغمات نے دنیا میں ایک نئی جہت کو روشناس کرایا۔ فنکاروں نے اگلے مورچوں تک جا کر اپنی افواج کے صف شکن جوانوں کی ہمت اور حوصلہ افزائی کی۔ یوں 1958کے آمریت کے داغ دھل گئے۔ سیاسی شعبدہ بازوں نے موقع غنیمت جان کر ایک مرتبہ پھ ایوب خان کو صف اول کا سیاست دان بنانے کے لئے کنونشن مسلم لیگ کی داغ بیل ڈال دی اوریوں  سیاسی آزادی کی راہ ہموار کرلی۔ ایوب کو
 کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار  نامزد کردیا گیا جب کہ ان کے مد مد مقابل مادرملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ انتخابی عمل بالغ رائے دہی کے تحت  صدارتی آرڈینس جاری کردیا  اور یوں ایک مرتبہ پھر عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت اس نظام کو جائز قرار دے کر ایک نئی تاریخ کردی۔ بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادرملت کو شکست کی حزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس قدر دلبرداشتہ ہوئیں کہ زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکیں۔ یہ گھنائونا کھیل اسی طرح جاری تھا کہ ایوب خان کے خلاف اس کی اپنی گود میں پرورش پانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے علم بغاوت بلند کردیا اور ایک نئی سیاسی جماعت  پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندتی کرتے ہوئے اپنے ہی محسن کے خلاف برسرپیکار ہوگئے۔ ملکی سیاست کا تسلسل کم وبیش ایس نہج پر جاری تھا کہ ایوب خان کے اپنے معتمد خاص جنرل یحییٰ نے اقتدار کی عنان ایوب خان سے چھین لی اور  چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پرایوب خان کو معزول کردیا۔ یحییٰ خان ملکی تاریخ کا وہ جرنیل تھا جسکو نائو نوش سے ہی بہت کم فرصت ملی۔ وہ زیادہ دیر تک اپنا تسلط قائم نہ رکھ سکا اور یوں مجبوراً اسے ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ 10سالہ آمریت کا کفر ٹوٹنے پر عوام الناس نے خوشی کے شادیانے بجائے اور مشرق اور مغرب سیاسی آزادی نے ایک نیا ماحول پیدا کردیا۔ سیاسی آزادی ملتے ہی  تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخابی دنگل میں کودپڑی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی مسلم لیگ مجیب الرحمان کی کمان میں مغربی پاکستان میں پی پی کی بھٹو کی زیر قیادت اپنے نمائندوں  کے لئے بھرپور انتخابی جلسے کررہی تھی۔ بھٹوکی جارحانہ قیادت نے مغرب میں تمام سیاسی جماعتوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا اور یوں ایوب خان کا دور آمریت اور یحییٰ خان کااقتدار اپنے انجام کو پہنچا۔ سیاسی آزادی نے اگرچہ پاکستان کو گھٹن کی فضائوں سے آزاد کرالیالیکن اس کے جونتائج برآمد ہوئے وہ پاکستانی تاریخ کا سیاسہ ترین باب ہے۔ مغرب اور مشرق پر محیط دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت دولخت ہوگئی۔ مشرقی پاکستان میں چونکہ عوامی مسلم لیگ اکثریت رکھتی تھی اور مغرب میں پی پی سو اقتدار کی منتقلی کیلئے مشرقی پاکستان واضح اکثریت کے باعث چاہتی تھی کہ پہلا قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں کیا جائے جبکہ بھٹو بضد تھے کہ مغربی پاکستان اپنے محل وقوع کے حوالہ سے زیادہ حقدار ہے یوں اس سیاسی چیپقلش کے نچیجے میں ملک دولخت  ہوگیا ادھر تم ادھر ہم کے نعرہ مستانہ نے پاکستان کی اکائی کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ 90ہزار پاکستانی افواج قید کرلی گئی اور مسلم اتحادپارہ پارہ ہوگیا۔ سقوط ڈھاکہ ایک ایسا زخم ہے جو صدیوں مند مل نہ ہوسکے گا۔ صدارتی انتخاب میں اگرچہ جماعت اسلامی مجیب الرحمان ( عوامی مسلم لیگ) سندھی رہنما جی ایم سید اور صوبہ سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی  نے بھرپور انداز میں مادر ملت کا ساتھ دیا۔ سندھ اور پنجاب کے تمام وڈیرے، مخدوم اور ناجانے کون کون سے نام نہاد بڑے تھے  جو مادر ملت کی مخالفت میں صف بستہ نا تھے۔
  ایوب دور حکمرانی میں وہ تمام سیاسی شعبدہ باز اکھٹے ہوگئے تھے جن کی نسلیں آج بھی ہم پر حکمران ہیں۔ اس وقت  عدلیہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت اپنی کارگزاری دکھانے میں پیچھے نہیں رہی   یاد ماضی عذاب ہے یاربچھین لے مجھ سے حافظہ میرا اس ساری تمہید کا پس منظر 75برس سے زیادہ پاکستان پر مسلط وہ  سیاست دان جن کے پرکھوں نے ہمارے درمیان نفرتوں کی ایسی خلیج حائل کردی جسے پاٹنا مشکل ہوگیا۔ پاکستان تحفہ خداوندی ہے اور اس کی حفاظت بھی آج تک اللہ سبحان تعالیٰ ہی کررہے ہیں۔ ماضی کی گمشدہ راہداریوں میں نسل نو کو لیجانے کا مقصد ان حقائق سے روشناس کرانا ہے جو اگرچے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ان تاریخی سیاہ کاریوں پر پردے ڈال دئیے گئے۔( جاری ہے)
 تاکہ وہ تمام سیاسی خانوادے جن کی نسلیں ہم پر آج بھی مسلط ہیں خود کو محب وطن ثابت کرسکیں۔ ملک عزیز میں جب بھی کبھی انتشار نے سر اٹھا اس کے محرک یہی عظیم خانوادے ہیں وہ جن کے اسلاف  مادرملت سے وفا نہ کرسکے وہ آج اس پاکستان سے کیا وفاداری نبھائینگے۔ آمریت کو براکہنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں وہ موجودہ سیاسی شعبدے باز  انہیں کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنا شوق حکمرانی پورا کرتے ہیں۔ ہمیں کسی کو الزام دینے سے پہلے گزرے واقعات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ 
ایک طرفہ تماشہ ہماری تاریخ  میں یہ بھی ہوا کہ 1962کے آئین کے مطابق صدرمملکت اس وقت تک اپنی نشست پر برقرار رہتا ہے جب تک اس کا کوئی بدل یا جانشین نہیں آجاتا۔ اس طرح مادر ملت کے انتخاب میں وہ تمام ذرائع استعمال کئے گئے جو ایک صدر کے اختیار میں تھے۔ بڑے بڑے علماء اور مشائخ نے مادر ملت کی مخالفت کی بلکہ فتاویٰ بھی جاری کئے ۔ سوائے مشرقی پاکستان کے جو مکمل طور پر مادر ملت کی حمایت میں سرگرم عمل رہے۔ اور اس عمل کی پاداش میں انہیں غدار قرار دیا گیا اور سقوط ڈھاکہ کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔ دھونس دھاندلی سے جیتا گیا انتخاب دراصل جمہوریت کی شکست تھی ایک تنہا خاتون مغرب کے وڈیروں، جاگیرداروں،افسرشاہی اور ناجانے کن کن کے مقابل تھی اور یوں اس ملک میں ایک ایسی جمہوریت پروان چڑھی جو حقیقی نمائندگی سے محروم ہوگئی۔ ماضی کی تلخ یادوں کو تازہ کرنے کا مقصد وہ حقائق نسل نو تک پہنچانا ہے جس سے شاہد کو تاحال نابلند ہیں۔

 تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را
 گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
نظریہ ضرورت کے تحت کئے گئے فیصلے کبھی بھی ملکی سلامتی،بقاء اور استحکام کا سبب نہیںبن سکتے۔  ملک عزیز آج ایک مرتبہ پھر ایسی بحرانی کیفیات سے دوچار ہے۔ ہر سو نفرتوں اور مفاد پرستی کا  الزام تراشیوں، بہتان بازیوں کا بازار گرم ہے۔ عدم برداشت ذاتی عناد اور دشمنی کی شکل اختیار کرگیاہے ملک دشمن سرگرمیاں عروج پر ہیں ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ معشیت کی تباہی اور مہنگائی کی عفریت سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ 22کروڑ عوام مہنگائی کی سولی پر چڑھائے گئے ہیں اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ خطرہ ہماری دفاع کو ہے۔ ہمارا ایٹمی قوت کے طور پر تسلیم کئے جانے کے بعد تمام عالمی قوتیں ہمیں اس طاقت سے محروم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ایسی صورتحال میں ہم سب کو سب سے پہلے ملکی سلامتی، استحکام ، بقاء اور سالمیت کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ہماری نسلوں کی سلامتی اس ملک سے وابستہ ہے ۔آج ملک عزیزجس بحران کا  شکارہے اس کے تقاضے ہیںکہ نسل نو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور ماضی کے گزشتہ اوراق کی ورق گردانی کرکے ان اصل حقائق تک رسائی حاصل کرے جس کا یہ شاخسانہ ہے حب الوطنی کے تقاضوں کو سمجھے کے لئے ہمیں پسند اور ناپسند کے اس کھیل میں صداقت تلاش کرنی ہوگی ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا۔ہمیں کسی برا اور کسی کو اچھا کہنے سے پہلے ان کے محرکات کا جائزہ لینا ہوگا۔ ملک اور قوم آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں آگے دریا اور پیچھے کھائی ہے ہمیں عقل ودانش فکر اور تدبر سے حالات کی گتھی کو سلجھانا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے پاکستان اس کی بقاء اور سلامتی کے لئے کوئی مثبت فیصلہ کرنا ہوگا۔ آج کے حکمران اگر ملک کو اس بحران سے نکالنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو عوام الناس کو اس عفریت سے نکالنے کیلئے وہ مشکل فیصلے کریں جو ان کی دست رست میں ہیں۔عالمی سطح پرمہنگائی کارونا رونے والے بیچارے غریب عوام پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے سے پہلے اپنے اخراجات پر پابندیاں کیوںنہیں لگاتے وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر ہم نے وزراء امراء اور افسرشاہی کے اخراجات پر پابندیاں لگا دیںتو ہم حاکم نہیں رہ سکیں گے۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ شوق حکمرانی میں اس مملکت کو جن حزیمتوںاور مشکلات سے دوچار کیا گیا ہے اس کے ذمہ دار حب الوطنی سے عاری وہ قوتیں جو صرف اور صرف اپنا شوق حکمرانی پورا کرنا چاہتی ہیں ان کی نظر میں اول اور آخر کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بائیس کروڑ عوام کو وہ فیصلے کرنے ہونگے جو ملک اور ملت کی سلامتی، خوشالی ، استحکام ، بقاء اور سالمیت کے لئے ضروری ہوں۔ ماضی کی تلخیاں اور تاریکی مستقبل کے لئے مینارہ نور بن سکتی ہیں

ای پیپر دی نیشن