’’اُسوۂ حضرت زؔینب ؓ ، مادرِ ؔملّت ؒ اور مجسمۂ آزؔادی! ‘‘

معزز قارئین ! آج ،9 جولائی ہے اور آج اہلِ پاکستان اور بیرونِ ملک ’’فرزندانِ و دُخترانِ پاکستان‘‘ اپنے اپنے انداز میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی 56 ویں برسی منارہے ہیں ۔ نئی نسل کو قائداعظم اور مادرِ ملّت کے آبائو اجداد کے بارے بتانا ضروری ہے کہ ’’ آپؒکے آبائو اجداد غوثِ اعظم، سیّد عبداُلقادر جیلانی / گیلانی کے مُرید ہونے کے باعث ’’ القادری ‘‘ کہلاتے تھے!‘‘ ۔
 قیام پاکستان سے پہلے ایک صحافی نے قائداعظم سے پوچھا کہ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟ ‘‘۔ تو آپ نے کہا کہ ’’ مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن، ہم سب مسلمان ،’’ باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ  کا یوم ولادت اور شہادت مل کر مناتے ہیں ! ‘‘۔ یاد رہے کہ ’’قائداعظم نے اپنے شانہ بشانہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا‘‘، چنانچہ محترمہ فاطمہ جناح قوم کی فلاح و بہبود میں سرگرم عمل رہیں ۔
 2 جنوری 1965ء کے ’’صدارتی انتخاب ‘‘ میں ( پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے صدر ) ، صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں، جنہیں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے ’’مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا۔ 
صدارتی انتخاب میں پاکستان کے ہر عاقل، بالغ (مرد اور عورت ) کے بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزا ر ارکانِ بنیادی جمہوریت کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا لیکن، عوامی جلسوں میں مادرِ ملّت کے خطابات نے آمریت کے قلعہ کو ہلا کر رکھ دِیا تھا۔ مَیں اُن دِنوں سرگودھا میں ’’نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا لیکن، مَیں نے پنجاب کے بڑے شہروں میں مادرِ ملّت کے خطابات سنے تو میرا ایمان تازہ ہوگیا۔ تحریک پاکستان کے نامور قائد ’’تحصیل عیسیٰ خیل‘‘ (ضلع میانوالی )کے ’’مجاہد ِ ملّت‘‘ مولانا عبداُلستار خان نیازی نے اپنے خطابات میں کہا کہ ’’مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح اپنے خطابات سے سانحۂ کربلا کے بعد اُسوۂ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیروی کر رہی ہیں‘‘ پھر مادرِ ملّت کے ہر جلسۂ عام میں ہر مقرر نے یہی انداز اختیار کِیا۔مَیں نے بھی اپنے ہر کالم میں لکھا کہ ’’ مادرِ ملّت نے اسوۂ حضرت زینب ؓ  کی پیروی کرتی رہی ہیں‘‘۔ 1996ء میں میری ملاقات راولپنڈی کے حقیقی درویش ’’ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی سے ہُوئی، جنہوں نے وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی دعوت پر وزیراعظم ہائوس جانے سے انکار کردِیا تھا۔ آغا جی نے کہا کہ ’’ کسی بھی مذہبی جماعت کو سیاسی جماعت کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ میری آغا جی سے صِرف تین ملاقاتیں ہُوئی ہیں کیونکہ میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ’’درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے‘‘۔ 19 جنوری 2016ء کو آغا جی سے میری تیسری ملاقات میں میرا اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری میرے ساتھ تھا ۔وہاں سیّد عباس کاظمی ، کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی ، شہاب مہدی رضوی اور آغا جی کے دونوں قانون بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی روح اُلعباس موسوی بھی تھے ۔ آغا جی نے مجھے بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے علاّمہ اقبال اور اور قائداعظم کی طرح قوم کی خدمت کریں‘‘۔
’’ خُلد آشیانی آغا جی!‘‘
معزز قارئین ! مَیں کئی بار اپنے کالموں میں تذکر ہ کر چکا ہوں کہ ’’ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی 25 جولائی 2022ء کی رات کو خُلد آشیانی ہوگئے تھے ۔ مَیں اُن کی پہلی برسی پر کالم لکھوں گا ، فی الحال ’’مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناح کی عظمت کا تذکرہ کر رہا ہوں ۔ 
’’مادرِ ملّت سے ملاقات!‘‘
معزز قارئین! صدارتی انتخاب سے پہلے ، ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج ، تحریک پاکستان کے نامور کارکن قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کو لاہور لائے ۔ مادرِ مِلّت سے ہماری ملاقات ہوئی تو ،اُسی وقت ، تحریکِ پاکستان کے دو کارکنوں ،لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاک پتن کے چودھری محمد اکرم طور ؔنے بھی مادرِ مِلّت سے ملاقات کی۔ پھر (چیئرمین پیمرا ، مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب ) مرزا شجاع اُلدّین بیگ اور (پنجابی ، اردو کے نامور شاعر اور ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسیؔ کے والد صاحب ) چودھری محمد اکرم طورؔ سے دوستی ہوگئی۔ پھر اُن کے بیٹوں سے ۔ تحریک پاکستان کے دَوران ، مرزا شجاع اُلدّین امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوا اور چودھری محمد اکرم طورؔنے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ 
’’جنابِ مجید نظامی کا خطاب!‘‘ 
5 اگست 2013ء کو’’مادرِ ملّت سینٹر‘‘ کی انچارج ماہر تعلیمات ڈاکٹر پروین خان کے زیر اہتمام جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ لاہور میں کثیر تعداد میں گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس خواتین کی تقریب تھی۔ ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) کی دعوت پر مَیں اسلام آباد سے لاہور گیا۔ وہاں خطاب کرتے ہُوئے جناب مجید نظامی نے کہا کہ ’’پاکستان کی ہر خاتون ہندوئوں کی ہر دیوی سے افضل ہے ‘‘۔ 
’’آزادی کی دیوی!‘‘
14 اگست 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ آزادی کی دیوی!‘‘ ۔ مَیں نے لکھا کہ ’’ اپنے کئی غیر ملکی دوروں میں مَیں نے کئی گرجوں میں حضرت مریم  ؑ کے مجسمے اور تصویریں دیکھیں ‘‘اور جب 11 نومبر 2001ء کو صدر پرویز مشرف ،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو، مَیں اُن کی میڈیا ٹیم کارُکن تھا، اجلاس کے اختتام پر ، 1992ء سے نیویارک میں "Settle" میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور چھوٹے بیٹے انتظار علی چوہان نے مجھے ،نیویارک بندر گاہ کے درمیان ’’ جزیزہ آزادی ‘‘ 
میں، فرانسیسی مجسمہ ساز "Frederic Auguste Bartholdi" کا تیار کردہ ’’ مجسمہ آزادی ‘‘ (Statue of Liberty) دِکھایا ۔
یہ مجسمہ 28 اکتوبر 1886ء حکومت ِ فرانس کی طرف سے دوستی کی علامت کے طور پر امریکی حکومت کو پیش کِیا گیا تھا، مجھے بتایا گیا کہ ’’ یہ مجسمہ ’’ آزادی کی رومن دیوی ‘‘ (Libertas )کے نمونے پر ہے۔ معزز قارئین! جب مَیں ’’مجسمۂ آزادی ‘‘ کو دیکھ رہا تھا تو  مجھے مادرِ ملّت یاد آ رہی تھیں اور ہاں! مادرِ ملّت تو مجھے کل بھی یاد آ رہی تھیںاور ہمیشہ یاد رہتی ہیں ۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن