معروف دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر نے ضیاءآمریت کے تہہ درتہہ اندھیروں میں اپنے لہو سے سچائی کا چراغ روشن رکھ کر ایک ایسی نادر و نایاب مثال قائم کی جس کی نظیر ماضی قریب میں ملنا مشکل ہے۔ ہماری تاریخ کے ایک ایسے بھیانک دور میں، جب سیاسی کارکنوں کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے کی حکمتِ عملی سکہ رائج الوقت تھی، وارث میر نے اپنے وقت کے فوجی آمر جنرل ضیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارنے کی روایت قائم کی حالانکہ انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
جنرل ضیاالحق کے دورِ آمریت میں جہادی سوچ، فرقہ پرستی اور تنگ نظری کی سرکاری سرپرستی کے باعث روشن خیالی اور خرد افروزی جرم ٹھہری تھی۔ پروفیسر وارث میر کی غیرتِ ایمانی نے اس صورتِ حال میں باطل کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے مر جانے کو ترجیح دی۔ وہ جب تک زندہ رہے حق کی مشعل کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا۔ انہوں نے سیاسی آمریت اور فکری تاریک اندیشی کو اسلام اور بانیانِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کی روشنی میں گناہ عظیم ثابت کیا اور بڑے استقلال کے ساتھ ملائیت سے پھوٹنے والے استدلال کی نفی کرنے میں مصروف رہے۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے جو ملائیت کو تو رد کرتے تھے مگر اسلام پر بھی جان چھڑکتے تھے۔ اس موضوع پر ا±ن کی تحریریں اقبال کے ”دینِ م±لاّفِی سَبِیلِ اللہ فساد“ کی تفسیر ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ا±ن دانشوروں کے استدلال کو بھی اپنی حریتِ فکر کے ساتھ رد کیا جو م±لا کی بداندیشی کی سزا اسلام کی حقیقی، پاکیزہ روح کو دینے کے عادی ہیں۔ وارث میر نے اپنی فکر انگیز تحریروں میں اخوان الصفا، الکندی، الغزالی، اعر ابنِ ر±شد کے فلسفیانہ اندازِ نظر سے پھوٹنے والی سائنسی حکمت سے لے کر جدید مصر کے سیاسی مفکرین اور روشن خیال دانشوروں سے لے کر شاہ ولی اللہ، سرسید اور علامہ اقبالک کی فکری روایت کو اجاگر کیا۔ جارج آروَل کے مشہور ناول Farm Animal پر انکی تحریر پڑھتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ناول کا موضوع پاکستان ہو۔ وارث میر نے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم سے لے کر ڈاکٹر افتخار حسین تک متعدد روشن خیال دانشوروں کی ترقی پسند سوچ کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
وارث میر مسلمانوں میں روشن فکری کی اس تحسین کے دوران ایک انتہائی اہم دینی اور سیاسی مغالطے پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: ”میں پاکستان میں پروان چڑھنے والی ایک خاص تنقیدی روایت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ روایت یہ ہے کہ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور اقبال پر برصغیر میں راسخ العقیدگی یعنی مذہب پرستی کو فروغ دینے کا ”الزام“ لگایا جائے اور پھر یہ ثابت کیا جائے کہ ان لوگوں نے صوفیا کی انسانیت نواز اور عالمگیریت کی حامل تحریکوں کو سبوتاڑ کیا۔ اسکے علاوہ یہ کوشش بھی کی جاتی ہے کہ منطقی طور پر اس تاثر کو ابھارا جائے کہ انہی مسلمان مفکرین کی تنگ دلانہ ”کثرت پسندی“ نے غیر فطری انداز میں ہندوستان کو تقسیم کرایا۔ یہ اندازِ فکر ان لوگوں کا ہے جو مسلمانوں کے الگ قومی وجود اور اس وجود کے حوالے سے جنم لینے والے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کو اپنی سوچ کے دائرے سے خارج کر چکے ہیں۔ بھگتی فکر کے یہ علمبردار مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور اقبال کے افکار کو مماثل قرار دیتے ہوئے انہیں برصغیر میں آباد غیر مسلموں کا حریف قرار دیتے ہیں“۔
پروفیسر وارث میر اپنے اس مضمون میں قاضی جاوید کی کتاب”سرسید سے اقبال تک“ میں پیش کیے گئے استدلال کو رَدکرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”گویا اعتراض یہ ہے کہ اقبال ایک صوفی کی بجائے”راسخ العقیدہ“ مسلمان کیوں تھے اور ایک شاعر ہو کر مسلمانوں کے مصائب اور مسائل پر کیوں کڑھتے تھے؟جبکہ اقبال کے پورے کلام پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس تصوف کے حامی تھے جو صوفی کو جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے وہ رسوم کو نہیں بلکہ باطنی تجربے کو مذہب کا نام دیتے تھے۔ “ بانیانِ پاکستان کے فکروعمل کو متنازعہ فیہ بناتے رہنے کی یہ عادت پاکستان میں فوجی حکومتوں کے زیرِاثر پنپتی چلی آرہی ہے۔ وارث میر نے اپنی کئی تحریروں میں فوجی حکومتوں کے سیاسی کردار بارے بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں افواجِ پاکستان پر امریکی سکالر سٹیفن کوہن کی کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس بحث کے دوران وہ اپنے اس احساس میں قارئین کو شریک کرنا ضروری سمجھتے ہیں: ”یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان آرمی کے متعلق یہ کتاب پاکستانی قارئین کی بجائے امریکی ماہرین کے لئے لکھی گئی ہے، اس میں فوج اور سول کے باہمی تعلق کی مختلف نوعیتوں پر بحث کے علاوہ بین السطور، فوج کے سیاسی کردار کی ”وکالت“ بھی کی گئی ہے۔ افغانستان میں روسی قبضے اور ایران میں خمینی کے بر سراقتدار آنے کے بعد، نئی امریکی حکمت عملی میں، افواج پاکستان کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور اسی لئے امریکی پالیسی سازوں کےلئے ان افواج کے حسن وقبح سے مکمل طور پر آگاہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہ کتاب اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔“
اصل سوال یہ ہے کہ ہم طلوعِ آزادی کے بعد جلد ہی غلامی کی اس شب ِتاریک تک کیونکر پہنچے اور ان تاریکیوں سے نکل کر آفتابِ تازہ کی روشنی میں کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ ان سوالا ت کا جواب بھی پروفیسر وارث میر کے پاس موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ”قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کےلئے اقبال نے ایسی جرا¿ت مندانہ باتیں کیں کہ ان پر کفر کے فتوے لگنے لگے۔ خیال یہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو ایک ایسی کھلی فضا میسر آئے گی کہ وہ اسلامی فقہ پر جمی صدیوں پرانی گرد کو جھاڑ کر اپنے روشن ضمیر، مفکرین کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلئے ایک نئی دنیا تخلیق کرینگے۔ لکھنے، پڑھنے، سوچنے، اپنے مطالعہ اور اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کی آزادی ہوگی اور بڑی تیزی کے ساتھ ایک توانا اور ترقی یافتہ معاشرے کی پیدائش کا عمل شروع ہو جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ہوا کہ پاکستان بننے کے تھوڑا عرصہ بعد ہماری سیاسی وحکومتی قیادت کی توانائیاں باہمی چپقلش کی نذر ہونے لگیں اور بین الاقوامی استعمار کے نمائندوں نے اپنے مہروں کے ذریعے مقاصد پاکستان کو شہ مات دینے کی کوششیں شروع کردیں اور پاکستان کمیونزم اور اسکے مخالفین کی سیاسی و فکری سر گرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس کشمکش نے اسلام کی نئی تعبیرات وتشریحات اور پاکستان میں پروان چڑھنے والے سیاسی مزاج کو بھی متاثر کیا۔ یہ سیاسی مزاج، اتنے سال گزرنے کے بعد رفتہ رفتہ برصغیر اور برصغیر کی سرحدوں کے آس پاس پروان چڑھنے والی بین الاقوامی عسکریت کی ایک سیاسی ضرورت بن چکا ہے، لہٰذا پاکستان میں بچی کھچی روشن خیالی کےلئے بیرونی و اندرونی سرپرستوں کے سائے میں پختہ تر ہوتے جانےوالے اس مزاج کا مقابلہ کرنا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائےگا“۔
وارث میر کی تحریریں پاکستان کے حوالے سے اس درد اور بے چینی کا حاصل ہیں جس نے پروفیسر وارث میر کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ جسم و جاں کی سلامتی سے بے پرواہ ہو کر اپنی آخری سانسوں تک حق اور سچ لکھتے اور کہتے چلے گئے۔ دراصل وارث میر کی فکر انگیز تحریریں علمی اور فکری مقالات ہیں، جن میں پاکستان اور وسیع تر دنیائے اسلام کو درپیش سنگین مسائل سے ایک بندہ صاحب جنوں نے عاشقانہ انداز میں پنچہ آزمائی کی ہے۔ وارث میر اب جسمانی طور پر تو ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن وہ اپنے روشن خیال افکار کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔