واپڈا اور واسا سے پریشان لاہورییے

 

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر دکھ کا اظہار کرنا کبھی کبھی بہت ضروری ہو جاتا ہے یہاں پر جس دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا جا رہا ہے ایسی مشکلات اور پریشانیوں کے ازالہ کے لیے حکمرانوں نے کبھی کچھ نہیں کیا ایک طویل عرصہ سے پنجاب میں اقتدار کے مزے مسلم لیگ ن نے پھر ان کے ساتھ پیپلزپارٹی,مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی نے لوٹے ہیں۔ مگر انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ لاہوریوں کے حصہ میں ہر دور میں سوائے محرومیوں کے کچھ نہ آیا اور لاہور جیسے شہر کو پیرس بنانے کے دعوے ہمیشہ دعوے ہی رہے ہیں۔ لاہور شہر پیرس تو کبھی بھی نہیں بنا مگر ہر برسات میں "وینس"شہر ضرور بن جاتا ہے۔ہر بارش کے بعد جہاں انتظامیہ کے دعووں کی قلعی کھلتی ہے ساتھ ساتھ حکومتیں بھی بے نقاب ہوجاتی ہیں۔ہمیشہ لاہور کی انتظامیہ کمشنر ،ڈی سی اور واسا ایم ڈی سمیت دیگر عہدیدار کچھ نہ کچھ کہہ کر اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں اور جو بھی حکومت برسر اقتدار ہوتی ہے وہ اسے ماضی کی حکومتوں کی نااہلی قرار دے کر اپنی جان چھڑا لیتی ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ پنجاب کے کسی بھی حکمران نے انڈر گراونڈ سیوریج کے منصوبوں پر کام نہیں کیا۔یہاں سڑک کے اوپر منصوبوں پر توجہ دی جاتی رہی ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کی شوخیوں کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ حکمرانوں نے افتتاحی تختیاں زمین کے اوپر والے منصوبوں کی لگائی ہیں اسی وجہ سے لاہور شہر ہر برسات میں ایک الگ ہی منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں نالوں کی صفائی کے لیے باقاعدہ بجٹ رکھا جاتا ہے جسے عوام پر خرچ کرنے کی بجائے یہ لوگ نہ جانے کہاں ہڑپ کر جاتے ہیں اس کے ساتھ دوسرا ظلم لاہوریوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ سیوریج کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر وہ صرف کاغذوں کی حد تک رہ جاتی ہے۔
 جس کا نتیجہ بعد میں برسات کے دنوں میں ایسا برآمد ہوتا ہے کہ حالیہ مون سون کے سیزن کے ابتدائی دنوں میں لاہور میں سیلاب کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔وفاق کے مختلف اداروں لیسکو نے اپنی تنصیبات کو زیادہ کور نہیں کیا جس کی وجہ سے ہر برس کرنٹ لگنے سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوجاتا ہے۔پی ڈی ایم اے کا بڑا اہم کردار ہے مگر وہ ہر برس اپنا دامن اس صورت حال میں بچا ہی لیتی ہے۔بارشوں کے نتیجے میں لاہور کے پوش ایریاز،گنجان آبادیاں اور اندرون لاہور میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔پارک اور گرا?نڈ ندی نالوں کا منظر پیش کرتے ہیں جس سے مچھروں کی بہتات ہوتی ہے اور تعفن سے شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ بدھ والے روز ہونیوالی بارش کے بعد نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ لاہور میں اربن فلڈ آگیا۔نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ تمام کابینہ ارکان اورانتظامیہ پانی کی نکاسی کرنے کے لیے میدان میں ہیں، میں فیلڈ میں صورتحال کی بھی نگرانی کررہا ہوں اور پورے لاہورسے مسلسل اپ ڈیٹس حاصل کررہا ہوں۔لاہورمیں صرف 8 گھنٹے میں دو سو نوے ملی لیٹرریکارڈ توڑ بارش سے سڑکوں پرپانی کھڑا ہوا نہر کناروں سے بھی برساتی پانی باہر امڈآیا۔ نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہونے سے معاملات زندگی متاثر ہوئے۔محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران بارش کا سلسلہ جاری رہے گا۔لاہور میں بارش کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، 10گھنٹوں کے دوران291 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔درجن سے زائد علاقوں میں200ملی میٹرسے زائد بارش ریکارڈ کی گئی۔ کمشنرمحمدعلی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل 26 جون2022 کو 256ملی میٹربارش ریکارڈ ہوئی، 2018 میں لاہور میں 288ملی میٹربارش ریکارڈ کی گئی، کمشنرمحمد علی کا کہنا تھا کہ گزشتہ30 سال میں اتنے کم وقت میں ایسی بارش نہیں ہوئی۔ایم ڈی واسا غفران احمد کا کہنا ہے کہ سسٹم اپنی مکمل استعداد پرنکاسی آب کو ممکن بنا رہا ہے، بارش تھمنے کے چند گھنٹوں میں نشیبی علاقے کلیئرکر دیئے جائیں گے۔
 اب لاہوریوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے یہ امر قابل ذکر ہے کہ سب سے پہلے دو بڑے محکمہ جات جن کا بگڑا ہوا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے جن میں محکمہ واپڈا اور محکمہ واسا سرفرست ہیں۔ ان دونوں محکمہ جات کی کرپشن غفلت اور لاپرواہی کا نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو فوری نوٹس لینا چاہیے ان محکمہ جات میں تقریبا عملہ کرپشن کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے میں ہر کسی کی بات نہیں کرتا مگر اکثریت کچھ ایسی ہی ہے۔
 اس وقت محکمہ وابڈا کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے شمالی لاہور اور دیگر علاقہ جات کی گلیوں محلوں اور سڑکوں کے اوپر سے گزرتی ہوئی محکمہ واپڈا کی لٹکتی ہوئی تاریں جو ہر گزرنے والے شخص کو دعوت موت دے رہی ہیں جن کی وجہ سے شدید بارشوں کے دوران بجلی کا کرنٹ لگنے سے کئی بار بہت سارے لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور دوسری طرف یہ محکمہ صارفین کی شکایت کے باوجود کئی معاملات کو کئی کئی دن تک ٹھیک نہیں کرتا صارفین صرف دھکے کھاتے پھرتے ہیں ان کے دفاتروں میں مگر ان کی کوئی نہیں سنتا سب سے پہلے ان کو ٹھیک کریں. اور یہی حال محکمہ واسا کا ہے بلکہ اس محکمہ کا حال تو محکمہ واپڈا سے بھی بدتر ہے. بارشوں کا پانی برسات کے دنوں میں گلی محلوں میں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے کے علاوہ یہ منظر محکمہ واسا کی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے ہوتا ہے اور دوسری طرف بارشوں کے بغیر ہی ابلتے ہوئے گٹروں کا پانی شمالی لاہور کے مختلف علاقہ جات میں مصری شاہ فیض باغ شاد باغ چاہ میراں روڈ اور ملحقہ ابادیوں و دیگر علاقہ جات کے ابلتے ہوئے گٹروں کی وجہ سے رہتا ہے. جن کے متعلق شکایت بھی کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود محکمہ واسا کا عملہ کئی کئی مہینے تک معاملے کو درست نہیں کرتا یہ صرف مفت کی تنخواہیں کچھ ملازمین دفتروں میں فارغ بیٹھ کر کھا رہے ہیں اور بعض ملازمین اکثر ان دفاتر سے غائب رہتے ہیں مگر افسران بالا کو سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں جو پیسے دے دے اس کا کام ہو جاتا ہے جو نہیں دیتا اس کے گلی محلوں اور گھروں میں گندا پانی داخل ہوتا ہی رہتا ہے یہی حال صفائی والوں کا ہے.

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...