ملکی بد خواہ اور بارودی سرنگیں!!!

اپنے لیڈر سے محبت اور اندھی تقلید کے نشے میں اپنے ہی ملک و ریاست کی بد خواہی صرف اور صرف پاکستان میں ہی دیکھنے میں ملتی ہے اور الحمداللہ اب یہ نشہ ہرن ہوتے ہوے آہستہ آہستہ اپنے نقطہ انجام کو پہنچ رہا ہے عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کے سیاسی کارکنان کی کاشتکاری اور آبیاری کے نتیجہ میں قوم کوگذشتہ دہائی سے ایسی جمہوری فصل کاٹنی اور چکھنی پڑی جس کے بدلے میں قوم کو نفرت،انتقام ،بد اخلاقی، گالم گلوچ اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول کر سچا ہونے کا غذائی زہر کھانے کو ملا اور پھر جس کا کلائمکس(نقطہ عروج) دنیا نے 9 مئی کو دیکھ لیا جس میں سادہ لوح ملک دشمنوں نے اس بدخواہی اور نفرت کا اظہار جمہوری حدود دربوں کو پھلانگ کرریاست کے خلاف بغاوت نما طبل جنگ بجا کر کیا ستم صرف یہ نہیں تھا کہ فوج اور عدلیہ کی مشترکہ پولیٹیکل انجنیرنگ کے سہارے اقتدار میں آنے والی اس سیاسی جماعت نے قوم کی نوجوان نسل کوہر طرح کی حقیقی اقدار سے بھٹکا کرانہیں گستاخ بنایا اور انہیں زمینی حقائق سے دور لے جا کر اپنے ووٹرز اور کارکنان کو افسانوی و تصوراتی مفروضوں کے حصار میں جکڑ لیا بلکہ دوسرا ستم یہ بھی تھا کہ ا قتدار کے حصول سے قبل زمین آسمان کے قلابے ملانے والی اور طلسماتی دعوے کرنے والی جماعت تحریک انصاف ملک کے نظم و نسق کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے بعد اعلٰی درجہ کی نالائق نکلی خصوصا ساڑھے تین سالہ اس نو مولود اور نا بالغ حکومت نے ریاست کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا جو گذشتہ75 برسوں میں دیکھنے میں نہ ملا نالائقی کے مندرجات کی ایک لمبی فہرست ہے فی الحال جن کو زیب قرطاس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں البتہ انصافیوں کے ماضی کے زعم کو ضرور خاطر مدارت میں لایا جانا چاہیے جب حکومت ملنے سے قبل نیازی اور اس کا ہمنوا ٹولہ لمبی لمبی چھوڑا کرتے تھے لیکن پھر سب نے دیکھا کہ کس کس موقع پر کیسے کیسے تھوک کر چاٹا گیاآئی ایم ایف کو ملک کے لئے گالی قرار دینے والوں نے ملکی نظم و نسق چلانے کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے قرض کی خاطر ایسے گڑ گڑائے کہ اس کی مثال پہلے کہیں دیکھنے میں نہیں ملتی نہ صرف یہ بلکہ اپنے اناڑی پن اور فیل سوفیوں کے لئے اتنا قرضہ لے لیاجتنا کے گذشتہ 75 سالوں میں کسی سابقہ حکومت نے نہیں لیا تھا تحریک انصاف کے پہلے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو معاشیات کا ایسا ارسطو بنا کر پیش کیا گیا تھا کہ مخالفین کو بھی گمان ہونے لگا کہ پتہ نہیں اس کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے جس سے بڑے بڑے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن اسد عمر محض ریت کی ایک دیوار ثابت ہوئے وہ ایک سال سے بھی زائد اپنی وزارت پر ٹک نہ سکے ملک کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے لئے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں آدھی درجن کے قریب وزرائ خزانہ تبدیل کرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف عوامی انقلابی ریلف میں نا کام رہی لیکن جاتے جاتے ملک کی جڑوں میں بیٹھنے کے کار بد میں بھر پور کام یاب رہی جس نے جاتے جاتے ملک و قوم کے خلاف ایسی دماغ کی بتی روشن کی کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں معاشی بقا کے لالے پڑ گئے اور ایسے لینے کے دینے پڑے کہ ملک ڈیفالٹ کے دھانے پر آکھڑا ہوا مانا کہ 75 سالوں کا ملبہ صرف انصافی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا لیکن ان گزشتہ سالوں کے برعکس انہوں نے بھی کونسے تیر مار لئے بلکہ جاتے جاتے آنے والی حکومت کے لئے ایسی معاشی بارودی سرنگیں بچھایئں کہ ملک کا دیوالیہ ہونا ایک یقنی صورتحال اختیار کر چکا تھا خان صاحب نے IMF کے ساتھ خود ہی کیے جانے والے پاکستان کے 22ویںمعاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ووٹرز اورسپوٹرز کی نظر میں اچھا بننے اور عوامی لیڈر کی مقبولیت کو برقرار رکھنے اومحض سیاسی مفادات کے لئے IMF کے معاہدہ کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے وہ مہینے جب ملکی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کم ازم کم پچاس روپے کے قریب اضافہ کرنا تھا اسے عین اسی مہینہ میں اتنا ہی فی لیٹر سستا کر کے ریاست کے خلاف دانستہ سازش کر ڈالی اور یوں آئی ایم کے ساتھ معاہدہ کی خلاف ورزی کر تے ہوئے سمجھوتے کی دھجیاں اڑائیں اور دوسرا پاکستانیوں کے جوتے انہیں کے سر اور تیل سستا کر کے پاکستانی قرضوں کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ کر پاکستانی ریاست و قوم کو خطرناک حد تک قرضوں میں ڈبو دیا اور پھر حکومت جانے کے بعد ہر انصافی کی زبان پر ڈیفالٹ کی رٹ تھی اور یقنا ایک بد خواہی چاہتا ہے کہ اس کا اپنا ملک ڈیفالٹ ہو جائے لیکین اللہ بھلا کرے چین اور سعودی عرب کا جنہوں نے Reserver میںصرف 400 ملین ڈالر بچ جانے پر پاکستان کے ساتھ ایسا کندھا جوڑا کی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے کئی ماہ کے بعد تک ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچائے رکھا اب جبکہ پاکستان کامیابی سے IMF کے ساتھ نو ماہ تک کے عرصہ کے لئے اسٹینڈ بائی معاہدہ کامیابی سے پایا تکمیل تک پہنچ چکا ہے ملک کے بدخواہوں کے پیٹ مڑوڑ اٹھ رہے ہیں آخر ملک ڈیفالٹ ہو کر سری لنکا،لبیا یا شام کیوں نہیں بنا؟اور ڈیڑھ سالہ لاغر حکومت قلیل عرصہ میں پاکستان کو از سر نو معاشی ٹریک پر چڑھانے میں کیسے کامیاب ہو گئی؟ اب آپکو لنڈے کے تبصرہ نگار شہباز اور ڈار کی اس کامیابی پر چیختے چلاتے نظر آرہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ انہیں تو اب مفتاح اسماعیل سے بھی بہت ہمدردی ہو چکی ہے جن کے ذریعہ پی ڈی ایم حکومت نے سخت ترین اور غیر مقبول فیصلے کئے تھے اگر دیکھا جائے تو ملک کو معاشی بحران سے بچانے اور معشیت کو سہارے دینے میں بلآخر میاں بردان کی حکومتی تجربہ کاری اور ذاتی سفارتکاری کا کافی عمل دخل ہے لیکن عدم اعتماد کے بعد ملک کی بہتری کے لئے بننے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ ثابت کیا ہے اگر ملک کی ترقی اور بقا کی خاطر سیاسی جماعتوں کو ٹیم ورک کی طرح مل کر کام کرنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس کا بنیادی کریڈٹ آصف علی زرداری کو جاتا ہے جنہوں نے وزرات عظمیٰ کے لئے شہباز شریف اور وزرات خارجہ کے لئے بلاول کو موزوں سمجھا ملک میں کامیاب سرمایا کاری کے لئے کامیاب سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے اور تناظر میں بلاول کی کارکردگی قابل ستایئش ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدہ پر خوشی کے ڈونگرے نہیں بجانے چاہیں کیونکہ بھیک مانگ کر یا قرض لے کر ملک چلانے والے کبھی کا میاب نہیں ہوسکتے اور اہم بات یہ آئی ایم ایف کے قرض پر انحصار کرنے والے ملک پاکستان کے حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کہہ لیں یا پھر آمروں کی جمہوریت پر شب خون مارنا کہہ لیں جو آج تک پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے کل تیس معاہدوں میں سے 21 ادھور چھوڑ چکا ہے 
یہی وجہ تھی کہ اس بار آئی ایم ایف نے پاکستان سے ناک کی لکیریں نکلوایں اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا کافی درست کے کہ اس عارضی قرضہ کا حصول فخر کی بات نہیں بلکہ فکر کی بات ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی تلوار ابھی بھی لٹک رہی ہے اور بین الاقوامی معاشی ادارے موڈیز اور بلوم برگ نے بھی پیش گوئی کر ڈالی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کے اس امدادی پیکچ کے باوجود بھی پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا اور اہداف کا پور کرنا مشکل ہو گا لیکن اندرون ملک ڈالر اور سونے کی قیمت میں کمی اور ملکی سٹاک ایکسچینجوں میں شئیر ز کی مانگ میں اضافہ اور روپے کی بڑھتی قدر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو پاکستانیوں کو ٹریک پر چڑھتی ہو معشیت کی نوید دے رہے ہیں (ختم شدہ)

ای پیپر دی نیشن