وارث میر پر کیا بیتی ؟

Jul 09, 2023

فرخ مرغوب صدیقی

تحریر :فرخ مرغوب صدیقی   
23نومبر1979کوہمارے والد پروفیسر مرغوب صدیقی کا اسلام آباد میں انتقال ہوا۔ اُس کی وجہ آگے لکھوں گا۔ 23نومبرکو ہم سب اسلام آباد گئے تھے اور والد کو اسی دھرتی کی مٹی کے حوالے کر کے واپس آگئے۔ تیسرے روز والد کے بہت سے دوست افسوس کے لیے گھر آئے۔ سب سے پہلے آنے والوں میں پروفیسر وارث میر بھی شامل تھے۔ میر صاحب نے اپنے ہاتھوں میں اکثر چھوٹا سا بیگ تھام رکھا ہوتا تھا ۔ اُس میں اُن کے خطرناک ہتھیار قلم اور کاغذات ہوتے تھے۔ جس سے وہ طاقت ور ترین اداروں اور شخصیات کو شکست دے دیتے تھے۔ اُن کے بڑے حریف مارشل لاءکے حامی اور خواتین کے حقوق غضب کرنے والے تھے۔ وارث میر سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ سیالکوٹ پاکستان کا مردم خیز علاقہ ہے ۔ علامہ اقبال ؒ ، فیض احمد فیضؒ، ظفر اللہ خان گلزاری لال نندا ، مشاہد حسین سید، رحمان ملک ، ظہیر عباس ، شعیب ملک ، کلدیب نائیر ، اصغر سودائی ، ن م راشد، امجد اسلام امجد، ظفر علی خان ، مختار مسعود، غلام علی ، جوگندر پال ، راجندر سنگھ بیدی ، عبید اللہ سندھی ، وحید مراد، علامہ احسان الہٰی ظہیر ، شیو کمار بٹالوی، جیسے بڑے ناموں میں اپنی منفرد جگہ بنانا ، بے باک او ر جاندار الفاظ کے خالق وارث میر ہی ہو سکتے تھے۔ وہ ہمارے گھر آئے تو اس قدر رنجیدہ تھے ۔ پروفیسر مرغوب صدیقی کی رحلت ہوئی ویسے ہی حالات وارث میر کے لیے شروع ہوتے تھے ۔ مارشل لاءاور جماعت اسلامی سے اُن کا ملاکھڑا کا آغا ز ہو چکا تھا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی ماسٹر کی کلاسز والد مرغوب صدیقی نے 1958ءمیں شروع کیں اور وارث بیگ 1972سے 1976تک اس شعبے کے سربراہ رہے ۔ اس دوران اس کا جماعت اسلامی اور جنرل ضیاءکے حامیوں کے ساتھ آنکھ مٹکا شروع ہو چکا تھا اور ایک سازش کے تحت اُن سے جان چھڑانے کے لیے ایم فل، کے نام پر لندن بھجوایا گیا۔ لندن کے بعد یورپ اور امریکا بھی گئے ۔ اُن کے خیالات میں مزید تبدیلیاں آئیں۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں خود سے دیکھنے کا عمل بہت بہتر تھا۔ 1983میں جنرل ضیاءاور اُس کے حواری پروفیسر وارث میر کی جان کے در پر ہو چکے تھے۔ ایک وہ مارشل لاءکے شدید مخالف تھے ۔ دوسری جانب عورتوں کی حقوق کی بات وارث میر نے جس طرح توانا و اہ سے بلند کی اُس کے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بھٹو کی قتل کی منصوبہ بندی 1976میں شروع ہو چکی تھی ۔ 1978میں والد پروفیسر مرغوب صدیقی کا گھراﺅ شروع ہو چکا تھا۔ مارشل لائی ٹولا وائٹ پیپر شائع کر چکا تھا۔ جس کا ایک بڑا حصہ بھٹو شہید ، مرغوب صدیقی اور راﺅ عبدالرشید کے درمیان رابطوں مشورہ جات پر مشتمل تھا ۔ جس کے بعد لاہور میں ہماری رہائش گاہ جو پہلے ہی متنازع بنائی جا چکی تھی اوقات کے ذریعے سیل کر دی گئی۔ ایسا ہی طریقہ کار وارث میر کے خلاف استعمال کیا جا رہا تھا۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں اُن کی رہائش گاہ پر معلوم اور نامعلوم افراد کبھی اسلحہ لہراتے ، کبھی لائیٹیں آف کر کے دہشت پھیلاتے ۔ اُن کے بیٹے پر قتل کا مقدمہ بنایا گیا مگر لرز ش اُن کے قریب سے نہیں گزری۔ میں وارث میر کے بارے میں مزید کچھ لکھنے کی بجائے اُن کا ایک خط کاپی کر رہا ہوں۔ جو اُنھوں نے پروفیسر غفور احمد کو لکھا تھا۔ 
بزرگ محترم پروفیسر غفور صاحب !
اسلام و علیکم ! اُمید ہے کہ آپ خوش و خرم ہونگے ۔میرے مقابلے میں آپ کو زندگی کے نشیب و فراز کا کہیں زیادہ تجربہ ہے ۔ سیاسی لیڈر کے طور پر بھی آپ بہتر جانتے ہوں گے کہ سیاست میں مہیا معلومات کی روشنی میں جو موقف اختیار کیا جائے ضروری نہیں کہ حقائق بھی ہمیشہ اُس کی تائید کریں ۔ ایک سچے مسلمان کا فرض ہے کہ حقائق علم ہو جانے کے بعد اپنے موقف میں تبدیلی لائے اور اُس تبدیلی کا احساس اپنے عمل کے ذریعے دوسروں کو بھی کروائے۔ 
26نومبر بعد از دوپہر آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں تقریر فرمائی اور میرا نام لیے بغیر میرے ایمان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ میری فکری وفاداری کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اجتماعی لہجے میں یہ کہا کہ یونیورسٹی کو میرے جیسے اساتذہ کے وجود سے پاک کردینا چاہیے ۔ ایک طالب علم رہنما نے مجھے اور میرے بیٹے کو قاتلوں کے زمرے میں شمار کیا ۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جس وقت آپ اور آپ کے کارکن یونیورسٹی کے سینئر استاد ( جو خود شعبہ صدر اور ایڈوائزر سٹوڈنٹس رہ چکا ہے ) کو تخریب کار اور قاتل ثابت کررہے تھے۔ اس وقت میرا بیٹا آپ کی تقریر سننے کے لیے ہال میں موجود تھا ۔ اُسے ہال ہی میں موجود اُس کے بعض دوستوں نے بتایا کہ جس پروفیسر کے لیے اتنے بڑے بڑے القاب، استعمال ہو رہے ہیں وہ اُسی کا باپ ہے ۔ وہ حیرانی اور پریشانی کی حالت میں گھر کی طرف بھاگا اور نصف شب کے قریب معلوم ہو سکا کہ ایف آئی آر میں اُسی کا نام درج کرایا گیا ہے ۔ میں اور میرا خاندان اُسی روز سے پولیس اور عدالت کے چکروں میں ہیں۔ آج بھی میرے ذہن میں بار بار آپ کا چہرہ گھوم رہا ہے ۔ جس پر میں نے ہمیشہ شفقت کے ساتھ ذہانت کے آثار بھی دیکھے اور ایک صحافی کی حیثیت میں جسے میں نے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ 
پروفیسر صاحب آپ کو علم نہیں ہے کہ کسی قسم کی تصدیق کے بغیر اپنے کارکنوں کی فراہم کردہ ”افواہ“کی بنیاد پر طلبہ کے بھاری اجتماع میں کسی اُستاد کے بارے میں ہر قسم کی نامناسب بات کر دینے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آپ تو اپنا فرض نبھا کر چلے گئے لیکن آپ کو علم نہیں کہ ایک غلط اور سراسر بے بنیاد اطلاع کے حوالے سے گی گئی آپ کی تقریر نے ایک بے گناہ نوجوان اوراس کے اہل خاندان کے لیے کن صعوبتوں کا دروازہ کھول دیا ہے ۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہر باپ اپنے ”گنہگار“ بیٹے کے بارے میں بھی اسی قسم کے خیالات اور جذبات کا اظہار کرے گا لیکن آپ جانتے ہیں کہ میں محض باپ ہونے کے علاوہ ایک لکھنے والا بھی ہوں اور ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کو خط لکھتے ہوئے اور اُس کی جماعت کے موقف کو جھٹلاتے ہوئے مجھے بخوبی احساس ہے کہ طالب علم رہنماﺅں اور یونیورسٹی میں میرے پیشہ ورانہ حریفوں کے مفاداتی اتحاد نے یہ قیامت ڈھائی ہے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مجھے نقصان پہنچانے کے لیے میرے معصوم اور بے گناہ بیٹے کو قتل کے مقدمے میں پھانس لیا گیا ہے ۔ اخلاق کی اس گراوٹ کا مظاہرہ ایک ایسی جماعت کے لیڈروں اور ساتھیوں نے کیا ہے جو خدا اور خدا کے رسول کے نام پر سیاست کرنے کے مدعی ہیں۔ (استغفراللہ ) ممکن ہے کہ ایک منظم سیاسی جماعت کی سیاسی مصلحتیں سچ کا اعتراف کرنے کی راہ میں حائل ہوں اور اس جماعت کے بے پناہ پروپیگینڈہ ، وسائل رائے عامہ کی نگاہ میں باپ بیٹے دونوں کو قصور وار ثابت کر دیں لیکن میرے اور میرے بیٹے کے علاوہ خدا کے حضور آپ اور آپ کی جماعت کے کارکنوں کو بھی پہنچانا ہے ۔ خدا صرف جماعت اسلامی کا نہیں ہے ۔ میرے جیسے ”گنہگار“ مسلمانوں کا بھی ہے ۔ اس کا بنایا ہوا قانون مکافات سب کے لیے یکساں ہے۔ کہتے ہیں اُس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ 
میں نے اس قسم کا کوئی خط لاہور جماعت اسلامی کے کسی رہنما کو نہیں لکھا اس لیے کہ وہ اپنے ہی حالات کے قیدی ہیں اور ان کے ساتھ کوئی ڈائیلاگ کرنا فضول ہے۔ اُنہوں نے اپنی لاعلمیوں اور بے خبریوں کو اعتماد کا نام دے رکھا ہے ۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں ان کی معلومات اور بصیرت کا علم سب پر واضح ہو گیا تھا وہ آج بھی اپنی ذات کے گنبد میں بند بیٹھے ہیں ۔ آپ کے نام بھی یہ خط اس وقت لکھ رہا ہوں جب میرا بیٹا ضمانت قبل از گرفتاری پر ہے ۔ پہلے لکھتا تو شاید اُسے اعانت طلبی کہا جاتا۔ اس وقت آپ کے نام یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کراچی میں رہتے ہوئے اپنے ”آزاد“ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ذاتی سطح پر انکوائری کرا سکتے ہیں کہ قصور بیٹے کا ہے یا باپ کے خلاف بغض ، کینہ اور پیشہ وارانہ رقابت نے اپنا جلوہ دکھایا ہے ۔ ایف آئی آر درج کروانے میں سب سے زیادہ اور فعال دلچسپی میرے پرانے شاگرد لیاقت بلوچ نے لی ہے جسے ایک زمانے میں صدر شعبہ کی حیثیت سے میں نے خود داخلہ دیا تھا۔ جو ابھی تک یونیورسٹی کی سیاست کے غالب دھڑے میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں ۔ اپنے طور پر تحقیقات کروائیں آپ پر اور بھی بہت سے حیران کن انکشافات ہوں گے۔ ایک اور ضروری بات میں نے اپنی زبان اور قلم سے ، تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست پر ہمیشہ تنقید کی ہے ہوسکتا ہے کہ میرا وجود آپ کے رفیقان سفر کو برداشت نہ ہوتا ہو۔ میں نہایت افسوس اور ملال کے ساتھ آپ تک یہ حقیقت پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یونیورسٹی میں میرے پیشہ ورانہ حریفوں نے نہایت نچلی سطح تک پہنچتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی قیادت کو میرے خلاف استعمال کیا ہے ۔ آپ کو کراچی بیٹھے ہوئے اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس قسم کی غیر اخلاقی اور غیر ذمہ درانہ حرکتوں سے سندھ کے علاوہ پنجاب کے اکثر نوجوانوں میں بھی لفظ ”اسلام “ یا ”اسلامی “ سے الرجی پیدا کرنے میں آپ کی جماعت کے کن عناصر نے موثر ترین کردار ادا کیا ہے ۔ 
یہ خط لکھ کر اپنے یا اپنے بیٹے کے لیے کسی رورعایت کا طالب نہیں ہو رہا، کیس عدالت میں ہے آپ سے صرف اتنی استدعا ہے کہ اپنی جماعت کے ”جیالوں“ کے رعب و تسلط سے آزاد لاہور میں کسی فرد کو تلاش کریں اور میرے بیٹے کو مقدمہ قتل میں ملوث کرنے کے محرکات (مقامی اور قومی دونوں) کا تجزیہ کرائیں اور اگر حق و صداقت کی کوئی کرن آپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے تو اپنے دوسرے رفیقان سفر کو بھی ”توبہ “کا مشورہ دیں۔ اگر وہ توبہ پر آمادہ نہ ہوں اور اس قسم کی ”اسلامی سیاست “کو جاری رکھنے پر مصر ہوں تو پھر اپنے ضمیر سے پوچھئیے گا کہ آپ اسلام دوست قوتوں کے ساتھ ہیں یا اسلام دشمنوں کے دوست ہیں۔ میری قسمت میں جو بھگتنا لکھا تھا بھگت ہی رہا ہوں۔ خدا پاکستان کی آئندہ نسل اور اسلام کو ”جھوٹ “کے اُٹھائے ہوئے ان جھکڑوں سے محفوظ رکھے۔ 
وارث میر پنجاب یونیورسٹی 

مزیدخبریں