”تیزاب کا تالاب“ اور سنگدل تماش بین!

سات سال قبل، 2017ء کے یہی روزوشب تھے جب ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعے شاہراہ مستقیم پر چلتے پاکستان کو بے برگ وثمر دلدلی جنگلوں کی طرف دھکیل دیاگیا۔ یہ سوال اَن گنت مرتبہ پوچھاگیا اور شاید برسوں بعد تک بھی پوچھا جاتا رہے گا کہ نوازشریف کو سیاست بدر کرکے ایک ناپختہ کار طفلِ خود معاملہ کو ملک کی باگ ڈور سونپنا کیوں ناگزیر ٹھہرا تھا؟ کیا پاکستان زوال پذیر تھا؟ کیا ملکی ترقی وخوشحالی اور عوامی بہبود کے تمام اشاریے نیچے کی طرف جارہے تھے؟ کیا قومی سلامتی کے لئے سنگین مسائل پید اہوگئے تھے؟ کیا عوام چوکوں چوراہوں میں سراپا احتجاج تھے؟ کیا پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہوگیا تھا؟ کیا چارسو کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا؟ ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی ہاں میں نہیں دیاجاسکتا۔ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ تمام تر منفی ہتھکنڈوں اور کھلی چھپی سازشوں کے باوجود صرف چار سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کے خدّوخال تبدیل ہوچکے تھے۔ اندھیروں میں ڈوبا ملک روشن ہوگیا تھا۔ دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلا جاچکا تھا۔ جرائم زدہ کراچی کے کوچہ وبازار میں زندگی لوٹ آئی تھی۔ معیشت سنبھل رہی تھی۔ شرحِ نمو چھے فی صد سے اوپر تھی۔ روپیہ مستحکم تھا۔ زرّمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش تھے۔ پوری ملکی تاریخ میں آئی۔ایم۔ایف کا واحد پروگرام کامیابی سے مکمل ہوچکا تھا۔ نوازشریف نے ”الوداع آئی۔ایم۔ایف“ کا اعلان کرکے ایک نئے پرعزم پاکستان کی نوید سنادی تھی۔ بازارِ حصص نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ مہنگائی تاریخ کی کم ترین سطح، تین چار فی صد پر جامد ہوچکی تھی۔ سی پیک کی شکل میں ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کی چینی سرمایہ کاری نے لامحدود امکانات کے دروازے کھول دیے تھے۔عوام کی بجھی آنکھوں میں امید کے جگنو دمکنے لگے تھے۔ 
یہ سب کچھ ان حالات میں ہوا جب شرق وغرب کی ساری ہوائیں نوازشریف کے خیمہ اقتدار کی طنابیں اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھیں۔ طاہرالقادری، عمران خان اور ظہیرالاسلام کا لندن پلان، چار ماہ پر محیط خوں آشام دھرنا، آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ ظہیرالاسلام کی وزیراعظم کو کھلی دھمکی کہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جاﺅ ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا، توسیع کے لئے انگاروں پر لوٹتے راحیل شریف کی ہنرآزمائیاں، وزیراعظم کو زچ کرنے کے لئے طاقت ور ایجنسیوں کی کرتب کاریاں، میڈیا کی سپاہِ الزام ودشنام کی پرورش ونمو، ڈان لیکس کا بے ذوق ڈرامہ ، پانامہ کی شطرنجی بساط، ”ریجیکٹڈ“ (Rejected) کی شہرہ آفاق ٹویٹ، عجیب الخلقت جے۔آئی۔ٹی اور ”بیٹے سے تنخواہ نہ لینے“ والا، حیا باختہ ”عدالتی فیصلہ“، کسی ہالی وڈ فلم کے سکرپٹ کی طرح، تاریخ کی لوح پر رقم ہوچکے ہیں۔ 
28 جولائی 2017ءکو نوازشریف گھر بھیج دیاگیا۔ برسوں پر محیط، شجاع پاشا، ظہیرالاسلام، عاصم باجوہ، آصف غفور، فیض حمید، راحیل شریف اور قمرباجوہ کی اَن تھک محنت رنگ لائی۔ عمران خان 2018ءکے افق سے انقلاب عظیم کا آفتابِ جہاں تاب بن کر طلوع ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی نوازشریف عہد کی کمائی لٹنے کا عمل شروع ہوگیا۔ پونے چار برس پورے ہونے تلک ملک زوال کی گہری کھائی میں لڑھک چکا تھا۔ معاملہ صرف معیشت کی بربادی، سی پیک کے انجماد، پچیس فی صد کی شرح تک پہنچا دی جانے والی مہنگائی اور سات دہائیوں میں لئے گئے مجموعی قرضوں کے برابر نئے بیرونی قرضوں کا نہ تھا، پارلیمنٹ، قومی ادارے، سماجی اخلاقیات، تہذیبی قدریں، جمہوری روایات، مکالمے کا سلیقہ، سیاسی رواداری، سبھی کچھ طفلانہ خودسری کی بھٹی کا ایندھن ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن، پاکستان سنبھلنے میں نہیں آ رہا۔ نوازشریف کو ہٹانے اور عمران خان کو لانے کے لئے اس وقت کے جرنیلوں، ججوں اور ”انقلابی صحافیوں“ نے مذہبی جوش وجذبہ کے ساتھ یک دل ویک جان ہوکر جو کچھ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس ”معرکہءعظیم“ کے جو اثرات ونتائج مرتب ہوئے، انکی مثال بھی نہیں ملتی۔ پاکستان کا یہ حشر نہ بھارت کے ساتھ لڑی گئی جنگوں میں ہوا نہ جنگوں کے نتیجے میں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی ملک سات برس تک جمہوری راہ پر چلتا رہا۔ افتاد کے ان بے مہر موسموں میں بھی ہم نے اتفاق رائے سے ایک آئین بنالیا جو پیہم تازیانے کھانے کے باوجود آج بھی قومی اتحاد و یک جہتی اور ملکی نظم ونسق کی مستند دستاویز ہے۔ لیکن 2018ءمیں شعوری طورپر ہمارا مقدّر بنا دئیے جانے والے سیاسی زلزلے کی تباہ کاریوں کا مداوا مشکل ہوا جارہا ہے۔ بلاشبہ عوام مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ جس آئی۔ایم۔ایف کو نوازشریف نے خداحافظ کہہ دیا تھا، اس آئی۔ایم۔ایف کو ایک بار پھر واپس لانے اور بے تدبیریوں سے معاملات بگاڑنے کے نتیجے میں آج پاکستان ایک طرح کی غلامی میں جکڑا جا چکا ہے۔کوئی بتائے تو سہی ....کیوں آئی ایم ایف معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر پٹرول کی سبسڈی دی گئی، کیوں آنے والی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے معاملہ کرنا مشکل بنادیاگیا،کیوں آج بھی آئی۔ایم۔ایف کو خط لکھے جارہے ہیں کہ پاکستان کو قرض نہ دو، کیوں لابنگ فرموں اور فدائین کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپ کر جشن مسرت منائے جارہے ہیں؟ اَن تھک کام کی شہرت رکھنے والا شہبازشریف، معاملات کو سنبھالنے اور عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے تگ ودو کر رہا ہے لیکن 2018ءسے 2022ءکے درمیان ہونے والی تباہ کاری اور ہمہ پہلو غارت گری کی وسعت وگہرائی، اندازہ و گمان سے باہر ہے۔
 مصحفی ہم نے تو سوچا تھا کہ ہوگا کوئی زخم 
تیرے دِل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
خان صاحب اور انکے عشاق نے جسدِ پاکستان کے اَنگ اَنگ پر اتنے گہرے زخم لگائے ہیں کہ برسوں تک انکی بخیہ گری اور مرہم کاری نہیں ہوسکتی۔ کیا نئے انتخابات سے یہ سارے زخم بھر جائیں گے؟ کیا بجلی کے بلوں کے نام پر اسلام آباد میں ایک نئے دھرنے کا آتشکدہ سلگانے سے مریض کو شفا ہوجائے گی؟ کیا ”تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان“ کے جلسے سارے دلدّر دور کر دیں گے ؟ کیا ایک نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالنے سے ہمیں درپیش مسائل ختم ہوجائیں گے ؟ کیا 9 مئی پر مٹی ڈالنے، سارے مقدمات ختم کردینے اور خان صاحب کو آزاد کردینے سے انہی کے لگائے ہوئے زخم بھر جائیں گے؟ کیا کچھ تنخواہوں یا مراعات میں کمی کے آرائشی اقدامات سے تیزاب کے تالاب میں جھونک دی جانے والی معیشت حسینہ عالم بن کر زندہ ہوجائے گی؟ حکومت پر تبرّیٰ کرنے والوں میں سے کس مسیحا کے ہاتھ میں وہ کرشمہ ہے جو چشم زدن میں ہمیں آئی۔ایم۔ایف سے نجات دلا دے گا، ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر دولت کی ریل پیل کر دے گا، جس کی ہیبت سے قرضوں کا پہاڑ سمٹ کر رائی ہوجائے گا اور جس کی ایک پھونک سے دس کروڑ عوام غربت کی لکیر سے اوپر اٹھ کر عیش ونشاط کے منطقے میں داخل ہوجائیں گے۔
اس طرح کی جادوگری کبھی ہوئی نہ ہوگی۔ آج عالم یہ ہے کہ مجموعی سالانہ آمدنی سات ہزار ارب روپے ہے جبکہ صرف قرضوں کا سود آٹھ ہزار ارب روپے ہے۔سو جھوٹ اور گمراہ کن پراپگنڈے کی فیکٹریاں بند کردیں۔ انہیں دلجمعی سے کام کرنے دیں جو اپنی سیاست کو داﺅ پر لگا کر نوکیلے کانٹوں کی وہ فصل کاٹ رہے ہیں جو آپ نے بوئی تھی۔ اور اگر کوئی طلسمی نسخہ کیمیا آپ کی زنبیل میں پڑا ہے تو بے سروپا دعوو¿ں اور کھوکھلے نعروں کے بجائے اسے بروئے کار لائیں لیکن المیہ یہ ہے کہ آپ کا ہنر جھوٹ، الزامات، کھوکھلے نعروں ، بے بنیاد دعووں، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں سے شروع ہوتا اور اِنہی پر ختم ہوجاتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن