اپنے لہو سے روشنی کے چراغ جلانے والا وارث میر

Jul 09, 2024

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

معروف دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر پاکستانی صحافتی تاریخ کا ایک ایسا منفرد کردار ہیں جنہوں نے جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے لہو سے سچائی کا چراغ روشن رکھنے کی جرات کی اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی۔ ہماری تاریخ کے ایک ایسے بھیانک دور میں، جب سیاسی کارکنوں کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے کی حکمتِ عملی سکہ رائج الوقت تھی، وارث میر نے ضیا جنتا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے کی روایت قائم کی جس کی کوئی اور نظیر ماضی قریب میں ملنا مشکل ہے۔
جنرل ضیاالحق کے آمرانہ دور میں جہادی سوچ، تنگ نظری اور فرقہ واریت کی سرکاری سرپرستی کے باعث روشن خیالی اور خرد افروزی جرم ٹھہری تھی۔ لیکن وارث میر کی غیرتِ ایمانی نے اس صورتِ حال میں باطل کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے مر جانے کو ترجیح دی۔ وہ جب تک زندہ رہے حق کی مشعل کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا۔ انہوں نے سیاسی آمریت اور فکری تاریک اندیشی کو اسلام اور بانیانِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کی روشنی میں گناہ عظیم ثابت کیا اور بڑے استقلال کے ساتھ ملائیت سے پھوٹنے والے استدلال کی نفی کرنے میں مصروف رہے۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے جو ملائیت کو تو رد کرتے تھے مگر اسلام پر بھی جان جھڑکتے تھے۔ اس موضوع پر ان کی تحریریں اقبال کے ”دینِ ملاّفِی سَبِیلِ اللہ فساد“ کی تفسیر ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ان دانشوروں کے استدلال کو بھی اپنی حریتِ فکر کے ساتھ رد کیا جو ملا کی بداندیشی کی سزا اسلام کی حقیقی، پاکیزہ روح کو دینے کے عادی ہیں۔ وارث میر نے اپنی فکر انگیز تحریروں میں اخوان الصفا، الکندی، الغزالی، اعر ابنِ رشد کے فلسفیانہ اندازِ نظر سے پھوٹنے والی سائنسی حکمت سے لے کر جدید مصر کے سیاسی مفکرین اور روشن خیال دانشوروں سے لے کر شاہ ولی اللہ، سرسید اور علامہ اقبال? تک کی فکری روایت کو اجاگر کیا۔ جارج آروَل کے مشہور ناول Farm Animal پر ان کی تحریر پڑھتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ناول کا موضوع پاکستان ہو۔
وارث میر مسلمانوں میں روشن فکری کی اس تحسین کے دوران ایک انتہائی اہم دینی اور سیاسی مغالطے پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: ”میں پاکستان میں پروان چڑھنے والی ایک خاص تنقیدی روایت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ روایت یہ ہے کہ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور اقبال پر برصغیر میں راسخ العقیدگی یعنی مذہب پرستی کو فروغ دینے کا ”الزام“ لگایا جائے اور پھر یہ ثابت کیا جائے کہ ان لوگوں نے صوفیا کی انسانیت نواز اور عالمگیریت کی حامل تحریکوں کو سبوتاژ کیا۔ اسکے علاوہ یہ کوشش بھی کی جاتی یے کہ منطقی طور پر اس تاثر کو ابھاراجائے کہ انہی مسلمان مفکرین کی تنگ دلانہ ”کثرت پسندی“ نے غیر فطری انداز میں ہندوستان کو تقسیم کرایا۔ یہ اندازِ فکر ان لوگوں کا ہے جو مسلمانوں کے الگ قومی وجود اور اس وجود کے حوالے سے جنم لینے والے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کواپنی سوچ کے دائرے سے خارج کر چکے ہیں۔ بھگتی فکر کے یہ علمبردار مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور اقبال کے افکار کو مماثل قرار دیتے ہوئے انہیں برصغیر میں آباد غیر مسلموں کا حریف قراردیتے ہیں“۔
وارث میر نے اپنے اس مضمون میں قاضی جاوید کی کتاب ”سرسید سے اقبال تک“میں پیش کردہ استدلال کو رَد کرتے ہوئے لکھا: ”گویا اعتراض یہ ہے کہ اقبال ایک صوفی کی بجائے”راسخ العقیدہ“ مسلمان کیوں تھے اور ایک شاعر ہو کر مسلمانوں کے مصائب اور مسائل پر کیوں کڑھتے تھے؟جبکہ اقبال کے پورے کلام پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس تصوف کے حامی تھے جو صوفی کو جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے وہ رسوم کو نہیں بلکہ باطنی تجربے کو مذہب کا نام دیتے تھے۔ “بانیانِ پاکستان کے فکروعمل کو متنازعہ فیہ بناتے رہنے کی یہ عادت پاکستان میں فوجی حکومتوں کے زیرِاثر پنپتی چلی آرہی ہے۔ 
وارث میر نے اپنی کئی تحریروں میں فوجی حکومتوں کے سیاسی کردار بارے بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں افواجِ پاکستان پر امریکی سکالر سٹیفن کوہن کی کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔اس بحث کے دوران وہ اپنے اس احساس میں قارئین کو شریک کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ”یوں محسوس ہوتا ہے، پاکستان آرمی کے متعلق یہ کتاب پاکستانی قارئین کی بجائے امریکی ماہرین کے لئے لکھی گئی ہے، اس میں فوج اور سول کے باہمی تعلق کی مختلف نوعیتوں پر بحث کے علاوہ بین السطور، فوج کے سیاسی کردار کی ”وکالت“ بھی کی گئی ہے۔ افغانستان میں روسی قبضے اور ایران میں خمینی کے بر سراقتدار آنے کے بعد، نئی امریکی حکمت عملی میں، افواج پاکستان کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور اسی لئے امریکی پالیسی سازوں کے لئے ان افواج کے حسن وقبح سے مکمل طور پر آگاہ ہو نا نہایت ضروری ہے۔ یہ کتاب اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔“
اصل سوال یہ ہے کہ ہم طلوعِ آزادی کے بعد جلد ہی غلامی کی اس شب ِتاریک تک کیونکر پہنچے اور ان تاریکیوں سے نکل کر آفتابِ تازہ کی روشنی میں کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ ان سوالا ت کا جواب بھی پروفیسر وارث میر کے پاس موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کو فکری اورعملی طور پر خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کےلئے اقبال نے ایسی جرا¿ت مندانہ باتیں کیں کہ کہ ان پر کفر کے فتوے لگنے لگے۔ خیال یہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو ایک ایسی کھلی فضا میسر آئے گی کہ وہ اسلامی فقہ پر جمی صدیوں پرانی گرد کو جھاڑ کراپنے روشن ضمیر، مفکرین کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلئے ایک نئی دنیا تخلیق کریں گے۔ لکھنے پڑھنے اور سوچنے اور اپنے مطالعہ اور اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کی آزادی ہو گی اور بڑی تیزی کے ساتھ ایک توانا اور ترقی یافتہ معاشرے کی پیدائش کاعمل شروع ہو جائے گا لیکن بدقسمتی سے ہوا یہ کہ پاکستان بننے کے تھوڑا عرصہ بعد ہماری سیاسی وحکومتی قیادت کی توانائیاں باہمی چپقلش کی نذر ہونے لگیں اور بین الاقوامی استعمار کے نمائندوں نے اپنے مہروں کے ذریعے مقاصد پاکستان کو شہ مات دینے کی کوششیں شروع کردیں۔ مسلم لیگ کی سیاسی لحاظ سے کمزور اور نظریاتی لحاظ سے منتشر حکومتوں کے مقابلے کیلئے روایتی اسلام کی قوتیں، سیاست کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں اتر آئیں اور پاکستان کمیونزم اور اس کے مخالفین کی سیاسی وفکری سر گرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس کشمکش نے اسلام کی نئی تعبیرات وتشریحات اور پاکستان میں پروان چڑھنے والے سیاسی مزاج کو بھی متاثر کیا۔ یہ سیاسی مزاج، اتنے سال گزرنے کے بعد رفتہ رفتہ برصغیر اور برصغیر کی سرحدوں کے آس پاس پروان چڑھنے والی بین الاقوامی عسکریت کی ایک سیاسی ضرورت بن چکا ہے، لہٰذا پاکستان میں بچی کچھی روشن خیالی کےلئے بیرونی واندرونی سرپرستوں کے سائے میں پختہ تر ہوتے جانے والے اس مزاج کا مقابلہ کرنا روز بروز مشکل سے مشکل ترہوتا چلا جائے گا“۔
وارث میر کی تحریریں پاکستان کے حوالے سے اس درد اور بے چینی کا حاصل ہیں جس نے انہیں اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، لیکن وہ جسم و جاں کی سلامتی سے بے پرواہ ہو کر اپنی آخری سانسوں تک حق اور سچ لکھتے اور کہتے چلے گئے۔ انکی تحریریں پاکستان کی سیاسی اور روحانی تاریخ بھی ہیں اور پاکستان کے تابناک مستقبل کا خواب نامہ بھی۔ کاش ہم بھی اپنے اندر اسی تلاش و جستجو کو پروان چڑھانے پر کمر بستہ ہو سکیں۔ ضیا دور میں ریاستی جبر کے باعث جوانمرگی کا شکار ہونے والے وارث میر اب جسمانی طور پر تو ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن وہ اپنے روشن خیال افکار اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
نوٹ: آج پروفیسر وارث میر کا یوم وفات ہے اور یہ کالم اسی مناسبت سے لکھا گیا ہے۔

مزیدخبریں