پس آئینہ
خالدہ نازش
پھر تم اس نتیجے پر کیسے پہنچے کہ شاہ جی ایک ناکام اور پاگل انسان نہیں ہیں بلکہ وہ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں مگر تمہارے اکیلے کی بات پر کون یقین کرے گا جبکہ تمہارے علاوہ باقی سب لوگ ان کو ایک ناکام اور پاگل انسان کا ٹائٹل دے چکے ہیں؟ میں نے توقیر سے یہ سوال کیا - توقیر سے میری پہلی ملاقات 2007ئ میں ایک ب±ک پبلشر کے آفس میں ہوئی تھی - وہ اپنی شاعری کی پہلی کتاب شائع کرانے کے لئے پبلشر سے سارا پروسیجر معلوم کرنا چاہتا تھا - اس کے بعد کبھی کبھی توقیر سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی - مجھے یاد ہے وہ اپنی آنے والی پہلی کتاب کے لئے بہت excited تھا ، پھر ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس نے کتاب شائع کرانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے ، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے ٹال دیا میں سمجھ گئی تھی کہ وہ نہیں بتانا چاہتا - اس کے بعد دو تین بار توقیر سے فون پر بات ہوئی مگر شاعری کے حوالے سے اس نے کوئی بات نہ کرنا چاہی اور پھر ٹیلی فونک رابط بھی ختم ہو گیا اس کا فون نمبر بند جانے لگا اور وہ منظر سے یوں غائب ہوا کہ سولہ ، سترہ سال کا ایک لمبا عرصہ گزر گیا - اب کچھ ماہ قبل اس نے مجھے فون کر کے حیران کر دیا ، مگر اب اس کی باتوں میں کسی صوفی ، کسی درویش ، کسی مرشد یا کسی ملنگ کی جھلک تھی - وہ لمبے لمبے عرصے تک گھر سے باہر رہتا - اس بار وہ صرف شاہ جی سے ملنے اپنے گاو¿ں واپس آیا تھا - یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے اپنے ہی جیسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے درویش کو درویشوں کی ، دانشور کو دانشوروں کی ، بے وقوف کو بے وقوفوں کی ، نشءکو نشییوں کی ، پاگل کو پاگلوں کی - انسان اپنی کلاس اپنی برادری کے انسانوں میں جو خوشی محسوس کرتا ہے وہ اسے کسی دوسری کلاس یا برادری کے انسانوں میں نہیں ملتی - اگر کسی بے وقوف کو کسی دانشور کے ساتھ بیٹھا دیا جائے تو ان کی عادتیں آپس میں ملتی ہیں اور نہ ہی ان کی باتیں- ایسے دو محتلف نظریات کے حامل افراد اکٹھے بیٹھ کر صرف وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں - شاہ جی توقیر کے گاو¿ں سے دور ایک علاقے کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے انسان تھے وہ بھی روحانیت کا سفر طے کر چکے تھے ، اور درویشوں کی سی زندگی گزار رہے تھے - ان کے علاقے کے لوگوں نے انہیں ناکام اور پاگل سمجھتا شروع کر دیا تھا - توقیر نے شاہ جی سے ایک گھنٹے کی ملاقات کا احوال بتایا کہ یہ صبح کا وقت تھا مجھے معلوم ہوا کہ شاہ جی تالاب کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں، میں بھی ان کے پاس جا کر بینچ پر بیٹھ گیا - ہمیں بیٹھے تقریباً آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا - یوں لگتا تھا جیسے ہم دونوں نے چپ کا روزہ رکھا ہو - ہمارے اردگرد گہرا سناٹا تھا ، پرندے تالاب کے پانی میں ڈبکیاں لگاتے ، پانی کو چھوتے اور اپنی موج مستی میں مگن زندگی کو اپنی ایک ایک سانس میں اتار رہے تھے - میں بینچ سے اٹھا اور ٹہلنے لگا ، چند منٹ بعد پھر بینچ پر آ کر بیٹھ گیا - مجھے سناٹے سے وحشت ہونے لگی تھی میں نے شاہ جی کی طرف دیکھا ، ان کے ماتھے پر آڑھی ترچھی لکیروں کے زاویوں کی موومنٹ اور تالاب کے رکے پانی پر مرکوز ان کی نظروں سے میں بھانپ گیا تھا کہ ان کا ذہن کسی گہری سوچ میں گم نئی نئی حقیقتوں کو کھوج کر ان کو معنی پہنانے کی کوشش کر رہا ہے - میں نے ایک لمبی سانس لی پھیپھڑوں میں فل آکسیجن بھری اور ان کی سوچ کے اس تسلسل کو توڑنے کے لئے تالاب میں کنکر پھینکا اور پانی کے ریپل ایفکٹ کو دیکھنے لگا جو پھیلتا ہوا تالاب کے کنارے تک پہنچ گیا - انہوں نے سوچ کے تسلسل سے باہر آ کر میری طرف دیکھا میں ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور مخاطب ہوا ? شاہ جی میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں ؟ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا - ایک گھنٹے کی خاموشی کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میرے ان الفاظ نے سکوت کی زنجیریں توڑ دی ہوں اور فضا میں گونجتے ان الفاظ کی بازگشت میرے جسم کے ہر حصے کو سنائی دے رہی ہو - میں نے سوال کیا ، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ کو ایک پاگل اور ناکام انسان کیوں سمجھا جانے لگا ؟ اور اگر آپ ایک پاگل اور ناکام انسان ہیں تو پھر کامیابی کسے کہتے ہیں ؟ جو مقدر حسین نے حاصل کی انہوں نے جواب دیا ، مقدر حسین نے ؟ میں نے کہا میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکا - وہ بولے میرے اور اس کے درمیان صرف سوچ کا فاصلہ تھا ورنہ تو ہم ہر لحاظ سے ایک جیسے تھے - ہمیں وقت بھی ایک جتنا میسر آیا تھا ، یعنی ہماری عمر بھی ایک جتنی تھی ، اگر کچھ محتلف تھا تو وہ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تھی - میں نے سوچ کا ایک لمبا سفر طے کر لیا تھا اور وہ اس مسافت میں مجھ سے بہت پیچھے تھا - وہ انسانوں اور چیزوں کو سطحی نظر سے دیکھتا تھا ، کیوں اور کیسے ، کی گہرائی میں نہیں جاتا تھا یعنی وہ انسانوں اور عام چیزوں کے معاملے میں ایک غیر سنجیدہ انسان تھا - وہ اپنی اس عادت کی وجہ سے عام لوگوں سے محتلف نہیں تھا ، ہم میں سے تقریباً ننانوے فیصد لوگ عام انسانوں اور چیزوں کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہی ہوتے ہیں اور انہیں سطحی نظر سے ہی دیکھتے ہیں ، وہ تو میرے جیسے صرف ایک فیصد لوگوں سے محتلف تھا جن کے ہاتھ انسانوں اور ہر چیز کی گہرائی میں اترنے انہیں کھوجنے اور پرکھنے کا پیمانہ آ جاتا ہے اور پھر وہ ایک کرب اور بے قراری کی کیفیت سے گزرتے رہتے ہیں ، خود کو مطمئن کرنے اور سکون کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں- کہانیاں تلاش کرنے یا بھلانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، جو نہ منتوں و مرادوں سے دنیا میں آتے ہیں اور نہ ہی کسی بڑے پروٹوکول کے ساتھ دنیا سے جاتے ہیں - مفت میں آتے ہیں اور مفت چلے جاتے ہیں انہوں نے اپنے آنے جانے کی کوئی قیمت وصول نہیں کی ہوتی بلکہ کسی نہ کسی صورت میں وہ اپنے آنے کی قیمت ادا کر کے جاتے ہیں - میں سوچ کے پاتال میں اتر کر کن فیکوں کے گرد گھومتی کائنات کے وجود ، مقصد تحلیق اور وجہ تحلیق تک پہنچنے کی کوشش میں لگا رہا ، میں معرفتِ الٰہی کے حصول کے اسباب ڈھونڈتا رہا ، میں تجسّس کے میکروسکوب سے معمولی سے معمولی چیزوں کی اساس سے لیکر ان کی انتہا پر غور کرتا رہا ، میں رشتوں کی آڑ میں چھپی منافقتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ، میں غم اور خوشی کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر ان کی حدوں کو ماپتا رہا ، میں جو نظر آتا ہے وہ حقیقت ہے یا جو اس کے پیچھے چھپا ہے جیسے رازوں کے پردے چاک کرنے میں لگا رہا ، میں اپنے ذہن میں اٹھنے والے ? کیوں اور کیسے ، جیسے سوالوں کی گہرائی میں غوطے کھاتا رہا ، میں نے اقبال کے فلسفہ خودی میں خود کو تلاش کر کے خود کو خوداری کے ایسے منصب پر فائز کر لیا جس کے بعد صرف ایک ہی راستہ تھا ? سرکشی کا راستہ ، جبکہ مقدر حسین نے جو اپنے نام کی طرح مقدر والا تھا اس سارے وقت میں وہ کچھ حاصل کر لیا تھا جو دنیا کی نظر میں ایک کامیاب انسان کے پاس ہونا چاہیے - مقدر حسین کی یہ کامیابی میرے لیے طعنہ بن گئی - میرے والدین ، بہن بھائی ، رشتہ دار ، دوست احباب میرے سامنے اس کی ایک ایک کامیابی گنواتے اور مجھے ایک ناکام انسان گردانتے - میں نے پوچھا تو پھر کیا دنیا میں وہی لوگ کامیاب سمجھے جاتے ہیں جن کے پاس مقدر حسین کی طرح دنیا کی ہر نعمت ہوتی ہے ؟ اور آپ جس دولت سے مالامال ہیں ان کو پاگل اور ناکام ہی سمجھا جاتا ہے -؟ ان کا جواب تھا کہ اگر کامیابی کی تعریف مادہ پرستی کے گرد ہی گھومتی تو دنیا میں زیادہ تعداد ناکام لوگوں کی ہوتی - دنیا میں کوئی بھی ناکام نہیں ہوتا ، وہ جو جوتے گانڈھتےہیں ، بال کاٹتے ہیں ، کپڑے دھوتے ہیں ، سڑکوں پر جھاڑو دیتے ہیں یہ سب لوگ کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک مقصد کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے ہیں - ان کا کام دنیا والوں کی نظر میں ہوتا ہے ، بے شک انہیں کامیاب انسانوں کا ٹائٹل نہ ملا ہو - ناکام انسان اس وقت ہوتا ہے جب اس کی زندگی سے مقصد ختم ہو جائے - شاہ جی سے باتیں کرتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو - سورج ہمارے سروں کے اوپر آ کر رک گیا تھا ، میں نے گھڑی پر نظر ڈالی دن کے بارہ بج چکے تھے ہم اٹھے اور گھر کی راہ لی - میں راستے میں سوچتا رہا کہ تلاش کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے ، جس میں انسان خود کو تلاش کرتے کرتے کہیں گم ہو جاتا ہے اور دنیا والے اسے ایک پاگل اور ناکام انسان کا ٹائٹل دے دیتے ہیں - توقیر کو بھی اب یہ کٹھن سفر درپیش تھا -