گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
حکومت نے ٹیکس زدہ عوام کو ایک اور جھٹکا دے دیا۔ جولائی سے بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 7.12 روپے تک اضافے کی منظوری دے دی۔ حکومت کے اقدام سے مالی سال میں کم از کم 580 ارب روپے کی اضافی رقم جمع کر سکے گی۔ یہ شرح بجلی کی موجودہ قیمت سے زیادہ ہے، جسے صارفین ادا کریں گے، اس کی بنیادی وجہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور توانائی کی غلط پالیسیاں ہیں۔بجلی کے ان 32.5 ملین صارفین میں سے 26 ملین گھرانے کم درمیانی آمدنی والے طبقے کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت بجلی کی قیمتوں کے اضافے کے حوالے سے عجلت میں فیصلے کر رہی ہے۔وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی سمری سرکولیشن کے ذریعے منظور کرلی۔ماضی کے برعکس جب سمری پہلے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے پاس جاتی تھی، اس بار وزارت توانائی نے خاموشی سے سمری کو وفاقی کابینہ میں ارسال کی اور سرکولیشن کے ذریعے اس کی منظوری مانگی۔حکومت نے رہائشی صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 95 پیسے سے 7 روپے 12 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا ہے۔ فیصد کے لحاظ سے اضافہ 14.3% سے 51% تک ہے۔ ایک سے 100 یونٹس استعمال کرنے والے پاکستان کے غریب ترین صارفین کے لیے زیادہ سے زیادہ اضافہ ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایک سے 100 یونٹ تک پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے 74 پیسے فی یونٹ سے 11 روپے 69 پیسے تک اضافے کی منظوری دی ہے جو 3 روپے 95 پیسے یا 51 فیصد اضافہ ہے۔ یہ غریب ترین طبقہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔اس کی زندگی جو پہلے ہی اجیرن تھی مزید وبال بن گئی ہے۔ مگر مڈل اور اپر کلاس بھی پریشان ہے۔
میرے دوست راشد محمود کے گھر کا بجلی کا بل48000ہزار روپے آ گیا ہے۔ یہ پاکستان فلم اور شوبزانڈسٹریز کا ایک بہت بڑا نام ہیں اور اس وقت پاکستان میں ایک لیجنڈ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ آج بھی یہ اس شعبہ سے وابستہ ہیں۔ یہ پڑھے لکھے اور سفید پوش ہیں وہ بھی اس طرح کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اڑتالیس ہزار روپے کیسے بجلی کا بل ادا کروں۔ مہنگائی کے ہاتھوں مڈل کلاس بھی پس کر رہ گئی ہے ،خصوصی طور پر بجلی کے جس طرح سے بل آ رہے ہیں۔ بجلی استعمال کریں یا نہ کریں لیکن بل میں وہ یونٹ ڈال دیئے جاتے ہیں جو آپ نے استعمال بھی نہیں کیے ہوتے۔ اپر مڈل کلاس بھی بجلی کے بلوں سے ان بلوں سے جو ناجائز ڈالے جاتے ہیں شدید تحفظات رکھتی ہے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان جن کا تعلق اپر کلاس سے ہے وہ بھی واویلا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کو بل کوئی ساٹھ ہزار کے قریب بھجوا دیا گیا۔ امیر لوگوں کے جتنے بڑے بڑے گھر ہیں، اس کے مدنظرساٹھ ہزار بل کوئی زیادہ نہیں ہے۔ریحام خان نے سوشل میڈیا پر سکرین شارٹ شیئر کیا جس میں انہوں نے اپنے جون کے بجلی کے بل کی تصویر شیئر کی ہے جس کے مطابق ان کا بجلی کا بل 59471روپے آیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ مجھے جون کے مہینے کا بجلی کا بل موصول ہوا ہے، میں اپنے لاہور والے گھر میں صرف بارہ دن ہی رہی ،صرف ایک کمرے میں اے سی استعمال کیا جو بالکل نیا اور انورٹر ہے۔وہ سوال کرتی ہیں کہ یہ لاہور کی بات ہے، کراچی جیسے شہر میں ایک شخص جس کی کمائی ایک یا دو لاکھ روپے ہے اور چھوٹے بچے سکول یا کالج میں پڑھتے ہیں وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں یا ایک ریٹائرپنشنر کیسے اتنا بل ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
یہ تو ریحام خان کی طرف سے امیروں کی بات کی ہے کہ جس کی تنخواہ ایک یا دو لاکھ ہے، وہ کیسے افورڈ کرے گا۔ یہاں تو ایسے لوگ ہیں جن کی تنخواہ بارہ ہزار بھی ہے ،ان کے بھی بچے اور فیملی ہے، بچے پڑھتے بھی ہیں، ان کا گزارا کیسے ہوتا ہوگا۔ عوام پر حکومت کی طرف سے بجلی کے بل جس طرح بھیجے جا رہے ہیں لوگوں کا عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ جو لوگ افورڈ کر سکتے ہیں وہ سولر انرجی پر اپنے گھر، اپنے کاروبار کنورٹ کروا رہے ہیں لیکن اس حوالے سے بھی حکومت کی طرف سے حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ سولرپینلز لینے والے صارفین پر بھی ٹیکس لگے اور یہ ٹیکس بھی ناقابل برداشت بتایا جاتا ہے۔ جس کی کبھی حکومت کی طرف سے تردید آتی اور کبھی اس کی تائید آ جاتی ہے۔ بجلی کا استعمال گرمیوں کے دنوں میں زیادہ ہوتا ہے ،سردیوں میں بھی بہرحال بجلی کی ضرورت تو رہتی ہے لیکن گرمیوں میں یہ ہر آدمی کی لازمی ضرورت بن جاتی ہے۔ بڑے بڑے لوگ اپنے گھروں میں اے سی چلاتے ہیں۔ اگر گرمی کی شدت کم ہو یا موسم معتدل ہو تو پھر اے سی چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں یورپ اور مغرب میں ایک عرصہ سے قیام پذیر ہوں۔ آج کل کینیڈا میں مقیم ہوں۔یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ گھروں پر اے سی کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ موسم بہت بہتر رہتا ہے۔ کیونکہ درختوں کی بھرمار ہے۔
جیسے ہی کسی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے، ایک روایت ہے کہ اس کے گھر والے اس کے نام پر کہیں بھی جہاں بھی جگہ ملے پانچ درخت لگا دیتے ہیں جب کہ میونسپل کمیٹی کی طرف سے اتنی شجرکاری کی جاتی ہے کہ ہر بندے کے حصے میں دس ہزار درخت آتے ہیں گویا ایک بندے کے نام پرکینیڈا میں دس ہزار درخت ہیں جب کہ پاکستان میں ایک بندے کے نام پر پانچ سو۔کہاں دس ہزار اور کہاں پانچ سو۔ اگر پاکستان میں ہر کے حصے میں دس ہزار درخت آ جائیں تو موسم معتدل ہو سکتا ہے۔
عمران خان کی طرف سے اس حوالے سے ایک کاوش کی گئی تھی، انہوں نے خیبرپختونخواہ میں ایک ارب جب کہ وہ وزیراعظم بنے تو پورے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اگر وہ منصوبہ پایہ¿ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اس میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے تو پاکستان میں موسم معتدل ہو سکتا ہے۔
قارئین! جب یوسف رضا گیلانی صاحب وزیراعظم تھے تو راجہ پرویز اشرف بجلی اور پانی کے وزیر تھے، انہوں نے قطر اور دیگر ممالک کے ساتھ رینٹل پاور پلانٹ کے معاہدے کیے اور وہ پاکستان کو شفٹ بھی ہوئے لیکن ان کی پیدا کی ہوئی بجلی اتنی مہنگی ہے کوئی عام آدمی اسے استعمال کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتا ، اسی طرح میاں برادران کے ادوار میں میاں منشا اور اسی طرز کے کچھ بزنس پارٹنرز کو آئی ڈی پی پراجیکٹس تحفے میں دیئے گئے جو اب بند بھی رہتے ہیں اور شنید ہے کہ ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کرتے مگر سینکڑوں ارب روپے حکومت ادا کرتی ہے اور اسی طرح ہماری معیشت کو جھٹکے پہ جھٹکا لگ رہا ہے اور ہمارے بلوں میں وہ اخراجات بھی ڈال دیئے جاتے ہیں جو ہم نے کبھی استعمال ہی نہیں کیے، یعنی ”ناکردہ گناہوں کی سزا“۔ پیارے قارئین! جب تک آپ اپنا حق مانگنے کے لیے ان بڑے مگرمچھوں کا شکار نہیں کریں گے، آپ بس اسی طرح بِل پھاڑتے یاان بِلوں کو آگ لگاتے رہیں گے۔