اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
ثمینہ خالد گھرکی___موجودہ رکن پارلیمنٹ ،پانچ جولائی کو میری خوش دامن مستورہ بیگم مرحومہ کی تعزیت کے لیے ہمارے گھر تشریف لائیں۔
ثمینہ خالد گھرکی ،لاہور کی سیاست کا ایک بڑا نام، پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کی۔ وفاقی وزیر بھی رہیں۔ پارٹی پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا ، سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ اُن کا عزم اور حوصلہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ نہ ہی کبھی پارٹی چھوڑی۔ ثمینہ خالد گھرکی 13اگست 1956ءکو لاہور کے ایک ارائیں خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ جہاں سے 1976ءمیں گریجویشن کی۔ جس کے بعد اُن کی شادی خالد جاوید گھرکی سے ہو گئی جو ایک متمول خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ثمینہ خالد گھرکی کے دو بیٹے اور دو ہی بیٹیاں ہیں۔ شوہر بھی رکن پارلیمنٹ بھی رہے۔
لاہور کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ثمینہ خالد گھرکی کی بہت سی سیاسی اور سماجی خدمات ہیں۔واحد سیاستدان اور رکن پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے ٹھیکوں اور کمیشن پر توجہ دینے کی بجائے اپنے حلقے میں ایک سو سے زائد دیہاتوں کو سوئی گیس جیسی سہولت بہم پہنچاکر حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کی۔
لاہور میں جلو کے مقام پر شاندار روایات کا امین ”گھرکی ہسپتال“ بھی اُن کے خاندان کی سماجی خدمات کی پہچان ہے۔ اس ہسپتال میں ہزاروں مریض علاج کے لیے آتے ہیں اور شفایاب ہوتے ہیں۔ یہاں صرف 10روپے کی پرچی پر علاج کی تمام تر سہولیتیں میسر آ جاتی ہیں۔ایسی سیاستدان ہیں جن کا دامن کرپشن کے الزامات سے پاک ہے۔
اپنے حلقے میں" باجی "کے نام سے پہچانی جانے والی ثمینہ خالد گھرکی ناصرف پارٹی کے ہزاروں ورکرز بلکہ اپنے آبائی علاقے کے لوگوں کی بھی امید ہیں۔ انہیں پنجاب کے ویمن ونگ کی صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ پارٹی منشور کے مطابق ہمہ وقت اپنے کام میں مصروف رہتی ہیں۔ انہیں آرام کا بہت ہی کم موقع میسر آتا ہے۔ کسی خاتون پارٹی ورکر کو کوئی مسئلہ درپیش ہو ، ثمینہ خالد گھرکی اُن کی آخری امید بن جاتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے ثمینہ خالد گھرکی کی ایک فون کال میری اہلیہ کو موصول ہوئی۔ پتہ چلا کہ وہ میری خوش دامن مستورہ بیگم کے انتقال پر تعزیت کے لیے گھر آنا چاہتی ہیں۔ وقت طے ہو گیا اور ثمینہ گھرکی 5جولائی کو ڈیفنس میں واقع اپنے گھر سے ہمارے گھر واقع سروبہ گارڈن فیروزپور روڈ آنے کے لیے روانہ ہو گئیں۔ ڈی ایچ اے سے سروبہ گارڈن کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ فیروزپور روڈ پر آنے کے لیے صرف ایک سٹرک غازی روڈ سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو ڈیفنس سے متصل ہے۔ ثمینہ گھرکی دن11بجے گھر سے نکلیں اور پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد سرو با گارڈن میرے گھر پہنچ گئیں۔ جہاں ہم سب اہلخانہ ثمینہ گھرکی کے آمد کے منتظر تھے۔
اُن کی گاڑی جیسے ہی ہمارے گھر کے سامنے آ کر رکی۔ میں نے آگے بڑھ کر انہیں خوش آمدید کہا۔ ثمینہ گھرکی کے ساتھ سابق ایم پی اے صغیرہ اسلام اور وائس پریذیڈنٹ پیپلز پارٹی وویمن پنجاب مسز عرفان بھی تھیں، ہم سب گھر کے اندر آ گئے اور ڈرائنگ روم میں براجمان ہو گئے۔
فاتحہ خوانی سے بیٹھک کا آغاز ہوا۔ اہلیہ سے تعزیت کرتے ہوئے مستورہ بیگم المعروف مس جعفری سے متعلق کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ثمینہ خالد گھرکی کا کہنا تھا کہ مستورہ بیگم نے قابل رشک زندگی گزاری انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی اور پھراپنے علم کی شمع سے دور تک روشنی بکھیری وہ اپنے پروفیشن کے ساتھ انتہائی مخلص تھیں انہوں نے سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوںکو تعلیم دی۔اپنے علاقے میں ان کی ایک پہچان تھی پھالیہ کاہر شہری انہیں پہچانتا ان کی عزت کرتا تھاپھالیہ میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں ان کا کوئی شاگرد نہ ہو۔ اللہ تعالی نے مس جعفری کو دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے بھیجا ان کی زندگی دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے۔ثمینہ خالد گھرکی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سے اٹیچمنٹ مس جعفری کے لیے دوسروں سے بڑھ کر تھی انہوں نے علاقائی سیاست میں خواتین کے لیے مثبت اور انمٹ نقوش چھوڑے۔اہلیہ نے ثمینہ خالد گھرکی کو بتایا کہ ان کا مائکہ پیپلز پارٹی کا حقیقی جیالا خاندان رہا ہے کئی حکومتیں آئیں،سیاسی جماعتیں ٹوٹتی بنتی رہیں،سیاسی نمائندے آتے رہے جاتے رہے لیکن ان کے والد لالہ تجمل حسین جوئیہ اور والدہ مستورہ بیگم نے پیپلز پارٹی کو نہ چھوڑا۔اس پر ثمینہ خالد گھرکی نے بیگم کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ہی خاندان پیپلز پارٹی کا اثاثہ ہیںان کاکہنا تھا کہ مس جعفری کی کمی پیپلز پارٹی تادیر محسوس کریگی اور ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا شاید پھالیہ کے عوام کے لیے کبھی پر نہ ہوسکے۔
لگ بھگ دو گھنٹے کی نشست کے بعد ثمینہ خالد گھرکی اور ان کی ساتھی خواتین نے اجازت چاہی اور بیگم انہیں گاڑی تک چھوڑنے آئیں۔