حکومت ٹیکس پر ٹیکس لگا رہی ہے، وہ جو پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں ان کا خون چوسا جا رہا ہے، کیا ملک ایسے چلتے ہیں کہ جو ٹیکس دیں ان سے زیادہ ٹیکس لیتے رہیں اور جو ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس چوری کی آزادی دے دی جائے۔ یہ کیسا نظام ہے، یہ کیسی حکمت عملی ہے۔ حکومت تو ایسے ٹیکس لگا رہی ہے جیسے لوگوں کو اتنا ٹیکس بھرنے کے بعد کھانا پینا حکومت نے دینا ہے، ٹیکس ادا کرنے سے صحت کی سہولیات میسر ہوں گی، تعلیم کی سہولیات میسر ہوں گی، کیا ٹیکس ادا کرنے والوں کو ریاست سہولیات فراہم کرے گی یا پھر صرف سانس لینے کے پیسے ہی وصول کیے جائیں گے۔ اب موجودہ حکومت نے جیسے عام آدمی اور بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبایا ہے، کیا ایسے ملک آگے بڑھے گا، جو حکومت کے قابو میں ہے اس کا گلا اور زور سے دبایا جا رہا ہے اور جو بے قابو ہیں انہیں تاحال مکمل آزادی ہے، انہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہے، نہ حکومت کے پاس ابھی تک اس حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اب تو بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا دیا ہے کہ ٹیکس کا بوجھ اشرافیہ پر بڑھانا ہو گا۔ اگر حکومت کی سب سے اہم اتحادی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ ٹیکس کا بوجھ اشرافیہ ہر ڈالنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے ابھی ٹیکسوں کی مد میں جو بوجھ عوام پر ڈالا ہے کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ لوگ ذہنی مریض بن جائیں گے۔ کیا شہریوں کی آمدن و اخراجات میں توازن رکھنے کے لیے پالیسی بنانا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ اگر حکومت ٹیکس جمع کرے اور اپنے اخراجات کم نہ کرے، افسر شاہی کی رہائش اور دیگر مراعات پر اربوں خرچ ہوں اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھایا جاتا رہے تو یہ ظلم کب تک برداشت ہو سکتا ہے۔ حکومت کیوں لوگوں کا سانس بند کرنے کی پالیسیاں بنا رہی ہے۔ حکومت کیوں یہ کہتی ہے کہ اگر ٹیکس اکٹھا نہ ہوا تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام نہیں ہو گا۔ پہلے وزیر خزانہ نے یہ بات کی اور اب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بھی یہی کہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی، تلخ فیصلے نہ کیے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر ہم نے اپنی ٹیکس آمدنی میں اضافہ نہیں کیا تو آئی ایم ایف کے ساتھ یہ ہمارا آخری پروگرام نہیں ہو گا۔
ملک کا انحصار درآمدات پر ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ ہمیں قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جب تک معیشت درآمد پر مبنی رہے گی، ہمارے پاس ڈالر ختم ہوتے رہیں گے۔ لوگ رشوت ، کرپشن اور ہراسانی کے ڈرسے ایف بی آر سے ڈیل نہیں کرنا چاہتے۔
جناب وزیر خزانہ ذرا آنکھیں کھولیں اور قوم کو یہ بتائیں کہ آپ فیکٹری مالکان کی پروڈکشن پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتے، کیوں آپ دودھ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی پروڈکشن کیپیسٹی پر ٹیکس لگائیں، کیوں حکومت چینی کی پروڈکشن پر ٹیکس نہیں لگاتی۔ حکومت اگر نظام میں اصلاحات نہیں لاتی تو اس کا خمیازہ بھی عوام نے بھگتنا ہے۔ پھر اتنے بڑے پیمانے پر اور بھاری ٹیکسوں کے بعد بھی جی ایس ٹی ادا کرنے والے شہری اس حوالے سے بیخبر ہیں کہ وہ جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ اصل جگہ پہنچ بھی رہا ہے یا نہیں پہنچ رہا ہے۔ موجودہ قوانین میں ایسی اصلاحات کی ضرورت تھی جس کے ذریعے سارا نظام ڈیجیٹلائز ہوتا کس ریٹیلر کے پاس کتنی پراڈکٹ ہے، کس ریٹیلر کے پاس کسی چیز کی کتنی مقدار موجود ہے اور وہاں سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس کیا واقعی اصل جگہ پہنچ رہا ہے اس نظام میں شفافیت ہونی چاہیے۔ نہ حکومت نے اپنے اخراجات کو کم کیا ہے، نہ غیر ضروری وزارتوں کو ختم کیا ہے، نہ افسر شاہی اور سیاست دانوں کی مراعات کو کم کیا ہے سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ بجلی بنانے والی کمپنیز کے ساتھ معاہدے حکمران طبقے نے کیے وہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں کیپیسٹی پر حکومت انہیں پیسے ہر حال ادا کرے گی۔ یعنی غلط معاہدے حکمران کریں اور اس غلطی کی سزا عوام کو ملے۔ کیا وفاقی وزیر خزانہ اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ کیا ایف بی آر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے، کیوں حکومت ٹیکس کے معاملے میں ڈیجیٹلائزیشن پر نہیں گئی، کیا وزیر خزانہ کے پاس اس کا جواب ہے۔ دودھ خریدنے والے ٹیکس دیں گے لیکن کیا دودھ کے کاروبار سے منسلک ادارے ٹیکس ادا کریں گے۔ اس نظام سے تو مالدار مزید مال کمائے گا اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی چیخیں آسمان تک جائیں گی۔ ایک طرف ملک مالی مشکلات سے دوچار ہے تو دوسری طرف ہمارے حکمران ٹیکس میں رعایت ہا ٹیکس میں چھوٹ دیے جاتے ہیں۔ مالی سال 24-2023 کے دوران 73.24 فیصد یا 16 کھرب 40 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اکنامک سروے 24-2023 کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مالی سال 2023 کے 22 کھرب 39 ارب روپے کے مقابلے مالی سال 2024 میں ریکارڈ 38 کھرب 79 ارب کی چھوٹ دی۔ کیا وفاقی وزیر خزانہ قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کھربوں کی ٹیکس چھوٹ کیا غریبوں کے لیے تھی یا پھر مالداروں کو فائدہ پہنچایا گیا، یہ جو دو دو کنال کے گھر حکومت سرکاری افسران کو بنا کر دے رہی ہے کیا یہ مالی بوجھ وفاقی وزراء، صوبائی وزرا، اراکین اسمبلی برداشت کریں گے یا پھر عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہو گا، کیا ایسی عیاشیوں سے پہلے ٹیکس ادا کرنے کرنے والوں سے مشاورت کی گئی۔ یہ تو ظلم کا نظام ہے۔ حکمران ہوش میں آئیں، لوگوں سے سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے۔
حکومت نہ تو ٹیکس آمدن کے ذرائع بڑھا رہی ہے، نہ حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے والے نظام میں اصلاحات لا رہی ہے، نہ حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے کے افسران کی طرف سے اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کی طرف بڑھ رہی ہے، نہ حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے کے نئے راستے تلاش کر رہی ہے۔ ان حالات میں معاملات کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سو اس صورت حال ہے ہمیں مشکلات میں اضافے کا پیغام ملتا ہے۔ جو ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے اس کی تفصیلات بھی تو پبلک ہونی چاہییں۔ یہ جو سمگلنگ ہے اسے کون روکے گا۔ نہ حکومت سمگلنگ روکے، نہ حکومت سے ٹیکس اکٹھا ہو البتہ ٹیکس چوری، ٹیکس چھوٹ میں اداروں کی معاونت ضرور نظر آتی ہے، سمگلنگ کیوں ہوتی ہے اس کا نقصان کسے اور فائدہ کسے ہوتا ہے یہ حقائق بھی وزارت خزانہ کو عوام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
دیکھنا یہ ہے وزیر خزانہ جی ایس ٹی کے نام پر اور کتنا ظلم کرتے ہیں۔ مالداروں کو کتنا فائدہ پہنچاتے ہیں اور بیبس شہریوں کے لیے زندگی کتنی تنگ کرتے ہیں۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
میں آڑھے تِرچھے، خیال سوچْوں
کہ بے اِرادہ کتاب لکھوں
کوئی شناسا سی غزل تراشوں
کہ اجنبی سا اِنتساب لکھوں
گنوادوں ایک عْمر کے زمانے
کہ ایک ایک پل کا حساب لِکھوں
یہ میری طبعیت پر منحصر ہے
میں جس طرح کا نصاب لکھوں
عذاب سوچوں ، ثَواب لِکھوں
طویل تر ہے سفر، مگر تمہیں کیا
میں جی رہا ہوں، مگر تمہیں کیا
تمہیں کیا، کہ تم تو کب سے
میرے اِرادے، گنوا چکی ہو
جلا کر سارے حْروف اپنے
میری دْعائیں جَلا چْکی ہو
میں رات اوڑھوں، کہ صْبح پہنوں
تم اپنی رَسمیں، اْٹھا چْکی ہو
سْنا ہے سب کچھ، بْھلا چکی ہو
تو اَب اِس دِل پہ، جَبر کیسا
یہ دِل تو، حَد سے گذر چکا ہے
گذر چکا ہے، مگر تمہیں کیا
کہ اِس میں خزاں کا موسم ٹہر چکا ہے
مگر تمہیں کیا، کہ اِس خزاں میں
میں جس طرح کے بھی, خْواب لِکھوں