مادرملت کے ملک وقوم کیلئے احسانات

صبا کمال
sabakamal555@gmail.com
 
محترمہ فاطمہ جناح  بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی عزیز ہمشیرہ  اور ملت اسلامی وطن پاکستان کے تابناک مستقبل کے لئیے خلوص و دیانت کا عظیم شاہکار تھیں۔چوٹی کی سیاست دان، دندان ساز، تجربہ کار اور قابل احترام خاتون سیاسی رہنما،  پاکستان کے معروف بانیوں میں قائد اعظم کی لاڈلی بہن کا شمار ہوتا ہے۔۔فاطمہ جناح کا جنم جناح خاندان میں 31 جولائی 1893 کو ہوا۔ وہ برطانوی ہند میں بمبئی پریزیڈنسی، گجرات کے کاٹھیاواڑ  خاندان میں جناح بائی پونجا اور میتھی بائی کے سات بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔1901 میں والد کی وفات کے بعد محمد علی جناح  ہی آپ کے سرپرست بنے تھے۔ سب سے بڑے بھائی کو بھی سب سے چھوٹی بہن کے ساتھ جو نہایت کم سنی کے عالم میں ماں کی ممتا سے محروم ہو گئی تھی، انتہائی محبت تھی جس میں والدین اور بھائی کی تمام شفقت مجتمع ہو گئی تھی۔ حضرت قائداعظم 1896 میں انگلستان سے فارغ التحصیل ہو کر وطن لوٹے اور فاطمہ کی تعلیم کا سوچا۔ 1902 میں بمبئی باندرا کانونٹ convent Bandra سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1919 میں کلکتہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے ڈاکٹر آر احمد ڈینٹل کالج سے دندان سازی کی اعلی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1923 میں بمبئی میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا۔ 1918 میں محمد علی جناح  کی رتن بائی کے ساتھ شادی ہونے تک وہ اپنے بھائی محمد علی جناح  کے ساتھ قیام پذیر رہیں۔ مادرملت یعنی قوم کی ماں کے لقب سے پہچانی جانے والی فاطمہ جناح ایک عہد ساز شخصیت بن کر ابھریں۔ بھائی کی حوصلہ افزائی پر انہوں نے ڈینٹل کالج سے دندان سازی میں ڈگری حاصل کی۔ 1923 کے دنوں میں جب یہ سوچنا بھی محال تھا کہ مسلم خاندان کی لڑکیاں کوئی پیشہ اختیار کریں، اس وقت فاطمہ جناح نے کلکتہ میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا۔
 قائدِ اعظم کی اہلیہ، رتی جناح کافروری 1929 انتقال ہو گیا  تو وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی ترک کر کے اپنے بھائی کے ساتھ جا کر رہنے لگیں اور ان کے گھر اور کم سن بھتیجی کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔ میدانِ سیاست میں وہ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ رہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی تو محترمہ فاطمہ جناح، بمبئی صوبائی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں اور 1947 تک اس میں کام کرتی رہیں۔ مارچ 1940 میں انہوں نے مسلم لیگ کے قراردادِ لاہور کے جلسے میں بھی شرکت کی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی کوششوں کی بدولت ہی فروری 1941 میں دہلی میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔1947 کے پرآشوب دور میں قائد اعظم نے ویمن ریلیف کمیٹی قائم کی۔کمیٹی نے مہاجر خواتین کی پاکستان میں آباد کاری میں بہت اہم کردار ادا کیا۔تقسیمِ ہند اور اقتدار کی منتقلی کے دوران اس کمیٹی میں محترمہ فاطمہ جناح  کا کردار بہت غیر معمولی رہا۔ آپ نے پاکستان بھر کے مختلف شہروں کے دورے کئے اور سیاسی طور پر مسلم لیگ اور خواتین کو فعال کرنے میں اپنی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ کا بھرپور استعمال کیا۔ مسلمان خواتین کو متحرک کیا، بعد میں یہی کمیٹی اپو ا  Pakistan All
 Association women 
   کے قیام کا بھی محرک بنی جس کی بنیاد  بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم، تحریک پاکستان کی رکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لئے محترمہ فاطمہ جناح نے بے پناہ کام کیئے۔ بعد ازاں وہ میدانِ سیاست میں واپس آئیں اور صدرِ پاکستان کے انتخابات میں حصہ لیا۔سماجی ترقی کے میدان میں بھی فاطمہ جناح کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بیگم لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر خواتین کی بیداری اور ملکی امور میں ان کی شمولیت کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ فاطمہ جناح، آج اگر پاکستانی بچیوں کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں تو ان کی شاندار کامیابیوں سے بھرپور زندگی کے پیشِ نظر وہ بجا طور پر اس کی مستحق دکھائی دیتی ہیں۔
مادر ملت  نے 14اگست1957 کو یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کا مقصد شہریوں کو پرسکون آزاد اور پرمسرت زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ تمام شہری ترقی اور خوشحالی میں یکساں شریک ہوں۔ اس جمہوری مملکت میں ہر شخص کو عقیدے، تحریر و تقریر اور تنظیم سازی کی آزادی ہونی چاہیئے۔ اپریل 1954 میں اپنے ایک اخباری بیان میں کہا کہ پاکستانی عوام ہر حال میں اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کریں گے۔ پاکستان جمہوریت کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور یہ جمہوری ملک ہی رہے گا اور جمہوریت میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ 1964 میں عید الفطر کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں مادر ملت  نے فرمایا کہ سیاسی عدم استحکام چند ایسے طبقوں کی خباثتوں کا نتیجہ ہے جو اقتدار پر قابض ہیں اور خود کو حب الوطنی اور عقل و دانش کا نمونہ سمجھتے ہیں۔1965 میں انہوں نے روایت شکنی کرتے ہوئے فوجی آمر ایوب خان کو چیلنج کیا اور صدرِ پاکستان کے عہدے کے لئے ان کا خوب مقابلہ کیا۔آمریت کے ایوانوں کو چیلنج کرنے کے لئے اس دور کی حزب اختلاف نے قائد اعظم کی عظیم بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خاں کے خلاف بطور صدارتی امیدوار کھڑا کیا تھا۔ حبیب جالب مادر ملت کے انتخابی جلسوں میں اپنی باغیانہ نظمیں پیش کرتے تو عوام کا جوش و جذبہ آسمان  سے باتیں کرتا نظر آتا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے موچی گیٹ اور باغ جناح لاہور میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ عوام اپنے حقوق کی بحالی کے لیے متحد ہوکر راستے کی تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ عوام پھر ایک نازک صورت حال سے دوچار ہیں۔ عوام کو اہم فیصلہ کرنا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ جن سے ان مقاصد اور نظریات کی تکمیل ہوسکے، جن کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔
 مادر ملت نے کہا پاکستان معاشی انصاف اور مساوات کے لیے معرض وجود میں آیا ہے عوام بلاخوف و خطر جمہوریت کی جدوجہد میں شریک ہوں ، کوئی قوت جمہوریت کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ انھوں نے حکمرانوں سے کہا اگر مجھے شکست دینا اتنا ہی آسان ہے، تو حکمران پریشان کیوں ہیں؟درآصل یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح اسلام کی علمبردار تھیں۔فاطمہ جناح فرمایا کرتی تھیں کہ امت مسلمہ صرف اسلامی اصولوں پر کاربند رہ کر ہی عظمت گم گشتہ حاصل کر سکتی ہے مادر ملت کی تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان تک کی جدوجہد تاریخ کا درخشندہ باب ہے قوم کی اس  عظیم ماں نے جہاںفوجی آ مریت کا  مردآنہ وار مقابلہ کیا اور شمع جمہوریت کہلائیں  تووہیںمسلم خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور حصول پاکستان کی منزل آسان بنا دی۔مادر ملت کے ارشادات آج بھی عوام  اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اجالا ہیں۔ آج وقت ہے کہ شمع جمہوریت محترمہ فاطمہ جناح کے پروقار افکار و نظریات کی روشنی میں ہم اپنے بنجر اذہان کی آبیاری کریں اور ملک و قوم کو ایک نئی اور روشن منزل پر گامزن کریں۔، مادر ملت کے انتقال پر حبیب جالب نے فی البدیہہ تین اشعار کہے تھے، پیش خدمت ہیں :
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے
مر کے بھی مرتے ہیں کب مادر ملت کی طرح
شمع تاریک فضاں میں جلانے والے
 ان کے شروع کے جلسوں میں تقریبا ڈھائی لاکھ لوگ ڈھاکہ میں ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آ پہنچتے تھے ، چٹاگانگ تک لاکھوں لوگ قطاروں میں ان کے استقبال کو کھڑے رہتے۔ ان کی ٹرین جس کا نام آزادی ا سپیشل ٹرین تھا کئی کئی گھنٹے تاخیر سے  پہنچتی کیونکہ جا بجا لوگ گاڑی کی ایمرجنسی بریک کھینچ دیتے اور ان کی منتیں کرنے لگتے کہ وہ ان سے بات کریں۔ وہ واقعی مادرِ ملت تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے قوم کی  خواتین کے حقوق کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تھا اور 1964 میں پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان سے ملک واپس دلانے کے لیے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح میدان عمل میں کودی تھیں، مادر ملت کی للکار کا کیا عالم تھا، بقول حبیب جالب۔پورا پاکستان مادر ملت کے ساتھ تھا، لاکھوں کے جلسے تھے اور مادر ملت تھیں۔
ایک آواز سے ایوان لرز اٹھے ہیں
لوگ جاگے ہیں تو سلطان لرز اٹھے ہیں
پاکستان پر فوجی راج کی بنیاد رکھنے والے جرنیل ایوب خان سے نجات دلانے کے لیے مادر ملت 1964 کے صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں اتری تھیں۔ مگر دھاندلی دھونس اور دھن نے الیکشن جیت لیا اور قائد اعظم کی بہن کو ہار گئیں۔ جمہور کے شاعر حبیب جالب قدم بہ قدم مادر ملت کے ساتھ تھے۔ الیکشن کے نتیجے پر جالب نے لکھا تھا۔
دھاندلی دھونس دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
9 جولائی 1967 کو کراچی میں بانی پاکستان کی باعمل بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئیں۔ سرکاری دستاویزوں کے مطابق موت کی وجہ عجزِ قلب تھی۔انھیں اپنے بھائی، محمد علی جناح کے ساتھ کراچی کے مزار قائد میں دفن کیا گیا۔ مادرملت کو ان کی وفات کے بعد حکومت پاکستان نے زبردست اعزازات سے نوازا تاہم بعد میں حکومت پاکستان نے ان کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کروایا۔

ای پیپر دی نیشن