میگزین رپورٹ
1940ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظم پر کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا۔ شبانہ روز کی محنت شاقہ نے ان کی صحت کو متاثر کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ان کی صحت کی طرف سے پریشان رہنے لگیں۔ وہ رات دن سائے کی طرح ان کے ساتھ لگی رہتیں اور ان کے آرام کا خیال رکھتیں۔ اکثر اوقات وہ پریشان ہو کر انہیں مشورہ دیتیں کہ وہ کسی وقت آرام بھی کر لیا کریں لیکن قائداعظم بڑے تحمل سے جواب دیتے ’’فاطمہ کیا تم نے کوئی ایسا واقعہ سنا ہے کہ فوج زندگی اور موت کی لڑائی میں مصروف ہو اور جرنیل چھٹی پر چلا گیا ہو‘‘ یہ جواب سن کر اگرچہ محترمہ فاطمہ جناح وقتی طور پر خاموش ہو جاتیں لیکن فوراً ہی وہ قائداعظم پر زور دینے لگتیں کہ وہ ڈاکٹروں سے رجوع کریں۔ قائداعظم پھر جواب دیتے۔ ’’دس کروڑ مسلمان میری طرف دیکھ رہے ہیں، میں ایسی حالت میں ان کی طرف دیکھنے کی بجائے صرف اپنی صحت کی طرف کیسے دیکھ سکتا ہوں‘‘ اور یہ جواب سن کر محترمہ فاطمہ جناح کو پھرخاموشی اختیار کرنی پڑتی۔ کثرت کار کی وجہ سے قائداعظم کی صحت اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ 1941ء میں دہلی سے مدراس کے سفر کے دوران وہ ٹرین کے باتھ روم میں جاتے ہوئے نقاہت کے سبب گر پڑے۔ محترمہ فاطمہ جناح ہمراہ تھیں انہوں نے انہیں اٹھایا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ میں نقاہت محسوس کر رہا ہوں چنانچہ بہن نے بھائی کو سہارا دے کر برتھ پر لٹا دیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ایک اور واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ 1940ء میں ہم ممبئی سے دہلی روانہ ہوئے تاکہ اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو سکیں ان دنوں قائداعظم کو بخار کی شکایت تھی۔ وہ کھانا کھا کر لیٹ گئے لیکن تھوڑی دیر بعد انہوں نے کراہنا شروع کر دیا۔ محترمہ فاطمہ جناح فرماتی ہیں کہ میں فوراً ان کے پاس پہنچی تو قائداعظم نے جسم پر ایک جگہ ہاتھ رکھ کر اشاروں سے بتایا کہ اس جگہ شدید درد محسوس ہو رہا ہے۔ جب اگلا سٹیشن آیا تو میں نے گارڈ سے کہہ کر گرم پانی کی بوتل منگوائی اور اسے درد کی جگہ پر لگایا جس سے کچھ افاقہ ہوا۔ کسی سفر میں محترمہ فاطمہ جناح ساتھ نہ ہوتیں تو وہ روزانہ قائداعظم کو خط لکھ کر خیریت دریافت کرتیں۔ ایک مرتبہ قائداعظم نے ڈاکٹر برنی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہاکہ فاطمہ نے طویل مدت تک میری بے لوث خدمت اور خواتین میں سیاسی بیداری پیدا کر کے مجھ پرایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ میں زندگی بھر نہیں چکا سکتا۔ مادر ملت نے بتایا کہ ہم مدراس میں تھے جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہونے والا تھا ڈیلی گیٹ جمع ہو چکے تھے۔ قائداعظم بے حد کمزور تھے اس کے باوجود اجلاس سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔ میں نے انہی روکا لیکن وہ نہ رکے۔ میں نے درخواست کی کہ اچھا خطاب مختصر کریں۔ یہ بات انہوں نے مان لی لیکن جب جلسہ عام میں پہنچے تو انہوں نے دو گھنٹے تقریر کی جس سے میری پریشانی بڑھ گئی اسی اجلاس میں انہیں ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب ملا۔
اعلیٰ انسانی اقدار:۔
مادر ملت کو پسماندہ عوام سے شروع سے ہمدردی تھی۔ انکی زندگی کا ایسا کوئی واقعہ ریکارڈ پر نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ مغرور، خودپسند، دولت پرست اور سنگدل تھیں۔ ان کی تمام زندگی سادگی، قناعت، انسانی رشتوں کی پاسداری اور اصول پسندی کا اعلیٰ نمونہ رہی۔ قائداعظم نے بھی اپنی دوسری ہمشیرگان میں سے فاطمہ جناح کا اسی لئے انتخاب کیا تھا کہ کیونکہ فاطمہ جناح قائداعظم ہی کی بے نظیر و بے مثال شخصیت کا پرتو تھیں۔
لوگوں کے بھلائی کے کام کرنے کے علاوہ فاطمہ جناح بھائی کی گھریلو زندگی کا بھی بے حد خیال رکھتی تھیں۔ وہ قائداعظم کی غذا کا خاص خیال رکھتیں۔ خانساموں سے اپنی نگرانی میں قائداعظم کی پسند و ناپسند کے مطابق صاف ستھرا کھانا تیار کراتیں۔ کھانے پر بھائی کے ایک ایک نوالے کا دھیان رکھتیں، باورچی خانے میں صفائی نہ ہونے پراکثر خانساموں کو ڈانٹ دیتیں۔ بھائی کے عمدہ اور صاف لباس کا خیال رکھنا بھی ان کا معمول تھا۔ یوں محترمہ فاطمہ جناح نے اوائل عمر میں ہی کھلونوں، گڑیوں سے کھیلنے اور ملبوسات اور زیورات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ایک باوقار راستہ اپنا لیا۔ ان کی قربانیوں کا تذکرہ قائداعظم نے ان الفاظ میں کیا۔ ’’وہ نہ صرف خود پراعتماد ہیں بلکہ انہوں نے مجھے بھی سنبھالے رکھا۔‘‘پھر جب مادر ملت نے سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو اپنی جاں نثاری اور خلوص کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ انہوں نے اپنی تمام جدوجہد میں کبھی بھی اپنی راہبری اور رہنمائی جتانے کی سعی نہ کی بلکہ کاروان آزادی کے ایک عام رکن کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ بقول ان کے:
’’میں نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کے لئے ایک سپاہی کی مانند دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش کام کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں قائداعظم مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے کوئی سیاسی عہدہ نہیں دیا تھا۔ انہوں نے اپنے لئے یا اپنی بہن کے لئے پاکستان نہیں بنایا تھا بلکہ پوری قوم کے لئے بنایا تھا۔‘‘
(مادر ملت ؒ۔۔۔۔۔محسنہء ملت سے اقتباس)