اٹھارہویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کہا کہ بعض ممالک میں آئینی ترامیم کے لیے ریفرنڈم کرایا جاتا ہے۔ ریفرنڈم کا مقصد مفادعامہ کومدنظررکھنا ہوتا ہے اوریہ کسی اہم آئینی ترمیم کے لیے بھی کرایا جاسکتا ہے، آئین ایک مقدس دستاویز ہے، اس کی تمام شقوں پرعمل درآمد ہونا چاہیے۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ریفرنڈم کا مقصد اہم ترین آئینی ترامیم پربراہ راست عوام کواعتماد میں لینا ہوتا ہے،یہ نہیں کہ کوئی جرنیل اقتدارمیں آئے اور صدربننے کے لیے ریفرنڈم کرالے۔ انہوںنے کہا کہ گریڈ سترہ کے افسران کی ترقی کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمشن موجود ہے لیکن ججوں کی تقرری پارلیمنٹ کےماتحت کردی گئی، جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ اسمبلی آئین ساز ہے یا نہیں۔ اس سے قبل حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بیلجئم ایسا ملک ہے جہاں آئین میں اہم ترامیم کے لیے ریفرنڈم کرایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات محدود ہیں اوراسے ہرقسم کے قانون سازی کی اجازت دے دی گئی ہے جس سے یہ ادارہ بے قابو ہوجائےگا۔ حامد خان ایڈووکیٹ کل گیارہ بجے تک دلائل مکمل کریں گے ، اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت اٹھائیس جون تک ملتوی کردی جائے گی۔ جبکہ کل ہی سے این آراو پر حکومت کی نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت ہوگی۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ عوامی مفاد کے لیے موسم گرما کی تعطیلات نہیں کی جائیں گی اوراس دوران مقدمات کی سماعت جاری رہے گی۔