ایبٹ آباد آپریشن پر ”نوم چامسکی“ کا تنقیدی رد عمل .... (۲)

ڈاکٹر علی اکبر الازہری
٭اٹلانٹک کے نامہ نگاروں نے اپنے موقف کی حمایت میں ویسٹ جرمن چانسلرہلمٹ کے بیان کا حوالہ دیا تھاکہ جرمن چانسلرنے جرمن ٹی وی کو خبردار کیا تھا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کاایبٹ آباد حملہ،انٹرنیشنل لاءکی کھلے بندوں خلاف ورزی تھی، بن لادن کو زندہ گرفتار کرکے اس پر عدالتی مقدمہ چلایاجانا چاہئے تھا۔ فاضل نامہ نگاروں نے اس بیان کا تقابل یونائیٹڈ سٹیٹس کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کے اس منافقانہ بیان سے بھی کیا جس کی رو سے ایرک ہولڈر نے بن لادن کے قتل کے فیصلے کا دفاع کیا اورایک ہاﺅس پینل سے کوئی دلیل دیئے بغیر یہ کہا کہ حملہ قانون کے مطابق تھا اور جائز تھا اور ہر اعتبار سے موزوں ومناسب تھا۔
٭کسی قسم کے طبی معائنے کے بغیر بن لادن جیسے انتہائی مطلوب شخص کی لاش کے خاتمے پر بھی سخت تنقید ہوئی اور برطانوی بیرسٹر جیوفری رابرٹسن نے بھی بن لادن کے قتل کی مخالفت کی اورواضح الفاظ میں یہ کہا کہ پاکستان کو اگر نو آبادیاتی ریاست بھی مان لیا جائے تب بھی وہ بہیمانہ قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے کامجاز ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق بھی زندگی کے حق کی بنیاد پر تحقیقات کا جواز مہیا کرتے ہیں لہٰذا امریکہ جیسے ”بااصول“ ملک کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ بن لادن کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کرائے جو قتل کے اصل حالات کو سامنے لاکر دنیا کومطمئن کرسکیں، رابرٹسن مزید یہ بھی واضح کرتا ہے کہ مجرم بذات خود یا اسکے ہمراہی، گرفتاری یا قانونی عملداری میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہوں اورقانون نافذکرنےوالوں کےلئے خطرے کا باعث بنتے ہوں تو قانون نافذ کرنےوالے ذاتی دفاع کےلئے انہیں گولی بھی مارسکتے ہیں لیکن اگروہ رکاوٹ اور خطرہ نہ بنیں تو انہیں زندہ ہی گرفتار کرنا ہوگا۔ بن لادن کے سر میں گولی پچھلی جانب سے لگی تھی۔ لیکن تحقیقات لازمی ہیں جن میں سمندر بردی کاجلد بازی پر مبنی اقدام بھی زیر تحقیق آنا چاہیے جس کے تحت پوسٹ مارٹم اور نمازجنازہ جیسی ضروری مذہبی رسم کو بھی نظرانداز کردیا گیا۔ بیرسٹر جیوفری رابرٹسن، اسامہ کے بہیمانہ قتل کا باعث امریکہ کے مجنونانہ پن کو ٹھہراتا ہے جو ترقی یافتہ اقوام کے ہاں ایک مشترکہ جنون ہے اورجس کا برملا اظہار بن لادن کے قتل کے بہیمانہ طریق کار پر امریکی جشن سے بھی ہوتاہے اور اخبارات میں چھپنے والے ایسے بیانات سے بھی سامنے آتاہے کہ ”اسامہ بن لادن کا قتل ایک جائز اور لازمی فریضہ تھا۔“
٭بیرسٹر رابرٹسن اس قتل کی جلد بازی پر برطانوی حکومت کا ایک دیرینہ رد عمل بھی یاد دلاتا ہے کہ ماضی میںجب ان افرادکے خاتمے پر توجہ دی گئی جو بدمعاشی میں اسامہ بن لادن سے بدرجہازیادہ آگے نکلے ہوئے تھے جس طرح کہ نازی قیادت کے لوگ تھے۔ جنہیں گرفتاری کے بعد چھ گھنٹے کے اندر اندر برطانوی گورنمنٹ پھانسی دے دینا چاہتی تھی لیکن صدر ٹرومین نے جسٹس رابرٹ جیکسن کی تائید میں یہ صدا بلند کی کہ سمری کورٹ کے تحت سزا، امریکی ضمیرپر بوجھ بنے گی اور ہمارے بچے ایسی سزا کو فخریہ یاد نہیں کرسکیں گے لہذا واحد راستہ یہی ہے کہ ملزموںکی بےگناہی یا جرم کا تعین اسی غیر جذباتی سماعت کے تحت کیا جائے جس کی اجازت ہمیں ہمارا آئین دیتا ہے اور جس کا ریکارڈ ہمارے ذہنوں کے صاف اور ہمارے مقاصد کے شفاف ہونے کی شہادت کا امین بنے گا تاہم یہ اصولی موقف اسامہ کے قتل کے موقع پر پس پشت ڈال دیا گیا۔“
٭ایسے معاشرے جو قانون کا احترام کرتے ہیں، اُن میں ہاں مشکوک افراد (suspects) کو مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے اور انہیں شفاف عدالتی کارروائی سے گزار کر صفائی کا پورا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن بن لادن کے معاملے میں ایسا نہیں کیاگیا؟
٭ایف بی آئی ہیڈ رابرٹ مُلر (Robert Muller) نے جُون 2002 میں یہ بیان دیا تھا کہ تفتیشی افسران کےمطابق 9 ستمبر کو ورلڈٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملہ، افغانستان میں موجود القاعدہ کے قائدین کی طرف سے کیا گیا تھا جس کی اصل منصوبہ بندی جرمنی میں ہوئی تھی اور سرمایہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے افغانستان میں موجود واسطوں کو فراہم کیا کیا تھا۔ گویا ایف بی آئی ہیڈ کے مطابق نائن الیون والے حملے کا ماسٹر مائنڈ افغانستان میں القاعدہ کے قائدین میں سے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آئی کی قیادت کو صرف آٹھ ماہ پیشتر کے اُس واقعے کی کوئی خبر نہیں تھی جب طالبان نے خود امریکہ کو بار بار یہ پیش کش کی تھی کہ بن لادن کو اپنی تحویل میں لے لُو! مگر واشنگٹن نے اس پیشکش کو ہر بار مُسترد ہی کیا تھا! لہٰذا وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ امریکی صدر کا یہ بیان غلط ہے کہ ہم فوری طور پر یہ سمجھ گئے تھے کہ نائن الیون کا حملہ القاعدہ نے کیا تھا: اور القاعدہ سے متعلق گذشتہ بیانات کی طرح وائٹ ہاوس کے موجودہ بیانات بھی بالکل غلط ہیں جو اُس نے بن لادن کے قتل کے بارے میں اب تک جاری کئے ہیں!
٭9/11 کمیشن نے بن لادن کے کردار پر جو مفصل شہادتیں پیش کی ہیں وہ زیادہ تر گوانتا نامو کے قیدیوں کے اعترافات پر مشتمل ہیں! جن کے حصول کا طریقہ بھی بجائے خود ایک بہت بڑا سوال ہے؟ اگر ان مشکوک اعترافی بیانات کو شہادتیں ہی سمجھ لیا جائے تو بھی ان کی حیثیت آزاد عدالت کے اُس ایک جملے کے سامنے بالکل صفر ہے جو ملزم کو مجرم ٹھہراتا ہے یا مشکوک کو معصوم قرار دیتا ہے!
٭یہ سوال بھی ہمارے لئے بڑا سبق آموز ہو سکتا ہے کہ اگر ہم امریکی اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ ہمارا ردِ عمل اُس وقت کیا ہو گا؟ جب عراقی کمانڈوز، جارج ڈبلیوبش کے گھر کے صحن میں اُتر آئیں اور اُسے قتل کردیں! پھر اُس کی لاش بحر اوقیانوس میں سمندر بُرد کردیں! (بھلے رسمی تجہیز و تکفین کے اہتمام کے بعد ہی سہی)۔
بُش کے بارے میں ہم بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کوئی مشکوک یا مشتبہ فرد (Suspect) فرد نہیں تھا بلکہ وہ تو ایسا فیصلہ کرنے والا حاکم تھا کہ جس نے عراق پر بلا جواز حملہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا؟ اور اُس کا یہ جرم اُتنا ہی بڑا اور بھیانک جنگی جرم تھا جتنا کہ نازی جنگی مجرمین کا جرم تھا جو نیورمبرگ ٹربیونل کے مطابق اپنے اندر برائی کی بے محابا بڑھنے والی کثافت کا ایک انبار رکھتا تھا.... اور یہی حال بُش کے جنگی جرائم کا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں عراقی قتل ہوئے لاکھوں بے گھر اور بے سہارا ہوئے۔
ملک کا بیشتر حصہ تباہ ہوا اور ان کا قومی ورثہ برباد ہو کر رہ گیا پھر اِس ہولناک بربادی پر فرقہ وارانہ فساد کا وہ خون آشام انتظام ....جو ملحقہ علاقوں میں بھی اب بری طرح پھیل چکا ہے۔ ان خوفناک جنگی جرائم کے بارے میں ایک بار پھر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ یہ جرائم اُن سب سے بے تحاشا زیادہ ہےں جنہیں بن لادن سے منسوب کیا جاتا ہے! (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن