”دوست“ ہیں دنیا میں کم‘ ”بھائی“ بہت!

پاکستان کا جغرافیہ دنیا بھر میں سب سے نرالا تھا‘ فاصلوں کے رقبے پر دوریوں میں پھیلی مملکت کے تحفظ کے لئے ہم ایک مکمل جمہوری نظام حکومت کی تشکیل اور تکمیل کی ذمہ داری پوری نہ کر سکے اور دشمنوں کی چال میں آکر موجودہ جغرافیائی حدود میں سمٹ کر آسودہ ہو گئے! ہماری موجودہ جغرافیائی اہمیت ہمارا امتحان لینے پر تُل گئی ہے اور ہم اس آزمائش سے بھی نیم دلی کے ساتھ نبردآزما دکھائی دے رہے ہیں! دفاعی نکتہ نظر سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایک مثالی محل وقوع رکھتا ہے! ایک طرف بحر اوقیانوس کے مضطرب پانیوں کی کف اڑاتی موجیں مشرقی ساحل سے سر پھوڑتی دکھائی دیتی ہیں‘ تو دوسری طرف بحرالکاہل کی پرسکون لہریں مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ ہلکورے لیتی رہتی ہیں! ریاست ہائے متحدہ کے شمال میں کینیڈا اور جنوب میں میکسیکو واقع ہے! مگر بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان‘ یہ 2 ہزار میل سے بھی کچھ زیادہ چوڑا خطہ ارض، قوانین فطرت کے تحت جنم لینے والی موسمیاتی سرگرمیوں کا مرکز رہتا ہے! ہر سال 2 ہزار سے زائد چھوٹے بڑے ”طوفانی بگولے“ اس ملک میں آن دھمکتے ہیں اور بستیوں کی بستیاں اجاڑتے گزر جاتے ہیں! 1953ءکے مہلک طوفانی بگولوں کے بعد 2011ءمیں اب تک یہ ملک سب سے زیادہ ہلاکت آفریں طوفانی بگولوں کی میزبانی کر چکا ہے! جبکہ ”طوفانی موسم“ ابھی ختم نہیں ہوا ہے! طوفانی گرد باد‘ سیلاب‘ زلزلے اور جنگل کی آگ کے مناظر آئے دن خبریں بن کر برقیاتی ذرائع ابلاغ پر دھوم مچاتے دکھائی دیتے ہیں! مگر انسانی ولولہ یہ تمام آفات سماوی سہہ لیتا ہے! ہم بھی ان دنوں آفات سماوی کی تحقیق و تفتیش کے مرحلے سے گزر رہے ہیں! پچھلے برس ہم نے بہت کچھ دیکھ لیا اور اب وہ ”مناظر“ دوہرانے کی تاب نہیں رکھتے!
رات گئے‘ ایک نجی ٹی وی انٹرویو کے دوران جناب نواز شریف نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ ہم تو ہم جناب پرویز مشرف بھی چونکے بغیر نہ رہ سکے ہوں گے! وہ فرما رہے تھے! معاملات میں ایسا بگاڑ تو پرویز مشرف نے بھی پیدا نہ ہونے دیا‘ جیسا آج کل رونما ہوتا دکھائی دے رہا ہے! انہیں تو سرے سے کچھ معلوم ہی نہیں کہ انہیں کرنا کیا ہے؟ اور کر کیا رہے ہیں؟“ ہم اس بیان کے پیچ و خم میں الجھ کے رہ گئے‘ جناب پرویز مشرف اپنے ہر انٹرویو میں جناب نواز شریف کا ذکر آتے ہی ہتھے سے اکھڑ جاتے اور جناب نواز شریف کے ”منتقم مزاج“ اور ”عقل سے پیدل“ ہونے کا ذکر لے بیٹھتے! مگر اس بار انہیں احساس ہوا ہو گا کہ جناب نواز شریف نہ صرف یہ کہ ”منتقم مزاج“ ہی نہیں بلکہ ”عقل سے پیدل“ بھی نہیں کیونکہ انہوں نے جناب پرویز مشرف کا نام لئے بغیر ان کا تسلسل پاکستان کے لئے ایک مسلسل عذاب قرار دے ڈالا ہے‘ ”کبھی آمریت کبھی ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کے ہاتھوں میں پاکستان ایک کھلونا بنا کے رکھ دیا گیا تھا‘ مگر اب ”جوہری جمہوری پاکستان“ کسی صورت میں کھلونا نہیں رہ سکتا!“
جناب نواز شریف یہ انٹرویو سینٹ میں ”انتخابی سرگرمی“ مکمل ہونے کے بعد دے رہے تھے! ہمیں یوں لگا گویا‘ مولانا فضل الرحمٰن نے جناب یوسف رضا گیلانی پر کچھ ایسا ”دم“ کیا کہ باقی سب کچھ ”یک دم“ ہو گیا۔ یاروں نے ”شیم شیم“ کے نعرے بھی سر کئے مگر مولانا فضل الرحمٰن سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست میں مولانا غفور حیدری پھنسا کر ہی ٹلے! اب سید یوسف رضا گیلانی‘ ”سوچا تھا کیا؟ کیا ہو گیا؟“ گنگناتے اور جناب نواز شریف سے نظریں چراتے دکھائی دے رہے ہیں اور جناب نواز شریف کے لہجے میں بھی ہلکی سی تیزی آتی دکھائی دے رہی ہے! کہیں یہ کسی نوع کی ”انتخابی مہم“ کا نکتہ آغاز تو نہیں! اگر ایسا ہوا تو یہ 1970ءکے انتخاب کے لئے چلائی جانے والی انتخابی مہم کے دورانیے کا ریکارڈ بھی نہ توڑ ڈالے! جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے دھرنے بھی ان کے میدان عمل میں اتر آنے کی دلیل بن رہے ہیں! ہم اس صورتحال میں بھی امید کا دامن چھوڑنے پر تیار نہیں اور سمجھتے ہیں کہ تمام قبائلی علاقوں کو متصل صوبوں میں ضم کر کے انہیں بھی پاکستانی شہری کا تحفظ عطا کر دینے کا وقت آگیا ہے! اگر ہم یہ کام اب نہیں کریں گے؟ تو‘ کب کریں گے؟ ”کالا ڈھاکہ“ خیبر پی کے کا ضلع بنوا کر مولانا فضل الرحمٰن تو ”پہل“ کر گئے! پاکستان پیپلزپارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی کس کام میں مشغول ہیں کہ یہ ”پہل“ ابھی تک ان کی نظروں میں نہیں سما سکی!
مولانا فضل الرحمٰن ایک حقیقی سیاسی شخصیت بن چکے ہیں جبکہ ہمارے ”حقیقی سیاسی راہنما“ سرائیکی صوبے سے آگے نہیں دیکھ پا رہے! پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان مسلم لیگ قاف ایک بار اور اپنی اپنی اداوں پر غور کر لیں تو انہیں احساس ہو گا کہ ایک ”برتر مفاد“ ان سے ”کم تر مفادات“ کا ایثار طلب کر رہا ہے! تب ہمارے پاس ”مکمل جمہوری طرز حکومت“ موجود نہیں تھا! اب تو ہمارے پاس 18ویں ترمیم کے نفاذ کی تاریخ بھی موجود ہے! اگر آج ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ نہ تھاما تو ہو سکتا ہے کہ آفات سماوی ہمارا ہاتھ تھام لیں اور آفات سماوی کے آگے تو امریکہ کا بس نہیں چلتا‘ ہم کس کھیت کی مولی ہیں! ہاں‘ اگر دست گدائی دراز کرنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے تو ہر ”طوفانی جھکڑ“ ہمارے لئے ”ڈالر“ لا سکتا ہے!
ڈالر کمانا ہمارے بس کی بات نہیں رہی‘ ہم نے اپنے تمام اثاثے دوبئی منتقل کر کے دیکھ لئے ”سیمنٹ‘ سریا اور شیشہ“ جما کے دیکھ لیا! توقع تھی کہ وارے نیارے ہو جائیں گے! مگر کیا ملا؟ ”گوادر سٹی“ کے نام پر دنیا بھر کے پاکستانیوں کو لوٹ لیا مگر ہاتھ کیا آیا؟ ”لندن نشیں“ کیا جانیں؟ کہ ”بوریا نشیں“ کس حال میں ہیں؟ مگر بوریا نشیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”لندن نشیں“ کس حال میں ہیں؟ ”جغرافیائی محل وقوع“ بہت کچھ کھینچ لاتا ہے مگر اس ”بہت کچھ“ کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا بھی ساتھ کھنچا چلا آتا ہے‘ جس سے ہمارا دور رہنا اور اس کا ہم سے دور رہنا‘ دونوں کے لئے ”بہتر“ ہوتا ہے: بن یامین حضرت یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی تھے جبکہ حضرت ناتان حضرت داود علیہ السلام کے شریک نبی تھے جبکہ ”بن یامین ناتان یاہُو“ پاکستان اور ایران کے لئے ”گرج“ کے سوا کچھ نہیں رکھتے‘ صدر احمدی نژاد نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے اثاثے امریکی خطرے کی زد میں ہیں! اور ہم ”دوستی“ کے عمومی تاثر میں زندہ ہیں! ایک صدر نے ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ صرف لکھی تھی اور اس کا حشر ہم نے دیکھ لیا!
”آقا“ کسی کے ”دوست“ نہیں ہوتے! لہٰذا ”دوست“ ہیں دنیا میں کم ”بھائی“ بہت،والی بات بھی ذہن میں رہے تو بہتر ہو گا!

ای پیپر دی نیشن