مکرمی! روزنامہ ”نوائے وقت“ (22-05-2013) کے ادارتی صفحہ پر مسٹر قیوم نظامی کا آرٹیکل شائع ہوا۔ مسٹر قیوم نظامی نے کیس ”قابل اعتماد ذرائع“ کے حوالے سے مبینہ طور پر 1988 کی وفاقی حکومت سے متعلقہ بعض افراد پر ڈھائی کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام عائد کیا ہے۔مسٹر قیوم نظامی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ 1988ءمیں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں وزیراعظم صاحبہ سے ملاقات کررہے تھے کہ اسی دوران ایک مولانا اندر آگئے۔۔۔یہ بات ناقابل یقین ہے کہ وزیراعظم کسی وزٹر سے ملاقات کررہی ہوں تو اس وقت کوئی اور کمرہ ملاقات میں داخل ہوجائے۔ ۔۔اگر مسٹر قیوم نظامی کی یہ ”داستان“ اور ”زیب داستان“ درست تعلیم کر لی جائے تو مسٹر نظامی سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ:آپ نے 1988ءمیں پی پی پی کی حکومت کی کرپشن دیکھنے کے باوجود 1990ءمیں اور 1993ءمیں جب بھی پی پی پی نے آپ کو انتخابی ٹکٹ دیا تھا تو پھر آپ نے پی پی پی کے نامزد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ کیوں لیا تھا؟اگر آپ نے پی پی پی کی کرپشن 1988ءمیں دیکھ لی تھی تو پھر آپ نومبر 1996ءتک پی پی پی کے ساتھ وابستہ کیوں رہے؟ 1993ءمیں پی پی پی سیکریٹریٹ لاہور کے انچارج کیوں بنے تھے؟ 1996ءمیں متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین کیوں بنے تھے؟ ملت پارٹی چھوڑ کر دوبارہ پی پی پی میں کیوں شامل ہوئے تھے؟ 2008ءمیں اپنی بیگم کو پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم پی اے کیوں بنوایا تھا؟ (ضیاءکھوکھر‘ ہاﺅس نمبر 24 ناظم الدین روڈ F-10/4 اسلام آباد۔