بلوچستان اور مسلم لیگ (ن) کا مثبت فیصلہ

ن لےگ کی قےادت نے حکومت سازی سے پہلے ہی جمہوری فےصلے کرنے شروع کردےے تھے جو اس کی سےاسی بصےرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سلسلے مےں سب سے پہلے تو ن لےگ کی قےادت نے خےبر پی کے مےں پی ٹی آئی کے مےنڈےٹ کو کھلے دل سے تسلےم کرتے ہوئے کہا کہ خےبر پی کے مےں پی ٹی آئی کی واضح اکثرےت ہے اس لےے انھےں وہاں حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ جےسا کہ مےاں نوازشرےف نے اپنے حالےہ خطاب مےں کہا کہ ہم واضح اکثرےت حاصل کرنے پر اللہ کے شکرگزار ہےں انھوں نے کارکنوں کو خوشےاں منانے کی بجائے شکرانے کے نوافل ادا کرنے کی ہداےت بھی کی اور ےہ کہ انھےں ےہ اکثر ےت اس لےے ملی ہے کہ اللہ ان سے کوئی بڑا کام لےنا چاہتا ہے۔ ہمارے خےال مےں ےہ بڑا کام سب کو ساتھ لے کر چلنا ہی ہو سکتا ہے، کےونکہ اتفاق ہی سے وہ برکت حاصل ہو سکتی ہے جس سے ملک کو سنگےن بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ ن لےگ کی اعلیٰ قےادت کے طرزعمل سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالےسی پر گامزن ہےں۔
گزشتہ اتوار گورنمنٹ ہاﺅس مری مےں بلوچستان مےں ن لےگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد مےاں نوازشرےف نے نےشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان کا وزےرِ اعلیٰ نامزد کر دےا۔ اور ےوں ن لےگ نے قربانی کا صرف نعرہ ہی نہےں لگاےا بلکہ اسے سچ کر دکھاےا ہے ۔ بلاشبہ ےہ اقتدار نہےں بلکہ اقدار کی فتح کا دن تھا۔
موجود الےکشن مےں ن لےگ بلوچستان کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی اس کے علاوہ عددی اعتبار سے بھی اسے برتری حاصل ہو گئی تھی کےونکہ آزاد ارکان نے بھی ن لےگ مےں شمولےت کر لی تھی۔ اس طرح اگر وہ چاہتے تو رواےت کے مطابق بغےر کسی دشواری کے وہاں حکومت بنا سکتے تھے۔ لےکن انھوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا احسن فےصلہ کےا ۔اس سے پہلے ہماری سےاسی تارےخ مےں اےسی کسی رواےت کا سُراغ نہےں لگاےا جاسکتا کہ اپنے اقتدار کو عوام کی فلاح وبہود کی خاطر قربان کردےا جائے۔ ن لےگ کی قےادت نے اپنے حق کی قربانی دے کر بڑ ے پن کا مظاہرہ کےاہے۔ اس اقدام سے بلوچستان مےں شفاف حکومت کا قےا ئم عمل مےں آئے گا اور انصاف کی حکمرانی کی راہ ہموار کرنے مےں مدد ملے گی۔ گزشتہ کئی برسوں سے جاری بلوچ عوام کی محرومےوں کا ازلہ کرنے کا روشن امکان نظر آرہا ہے۔
بلوچستان مےں متفقہ حکومت کے بننے سے اس صوبے کی سےاست اور داخلی صورتِ حال پر بڑے مثبت اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔ ےہ بھی فےصلہ کےا گےا ہے کہ صوبے کا گورنر پختونخواہ ملی پارٹی سے لےا جائے گا۔ مےاں نوازشرےف کا ےہ فےصلہ ان کی قابلِ قدر سےاسی بالغ نظری کا واضح ثبوت ہے۔ اس سے ےہ بات بھی عےاں ہو جاتی ہے کہ ن لےگ کی قےادت خود بھی ےہ چاہتی ہے کہ صوبے کے تمام معاملات کو بلوچ قےادت کو چلانے کا حق دےا جانا چاہےے۔ اور ےہ کہ نوازشرےف خود بھی بلوچستان کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لےے بہت سنجےدہ ہےں۔
اس سے پہلے بلوچستان مےں اتفاق رائے اور سےاسی ہم آہنگی سے حکومت سازی کا کام کبھی بھی اتنا آسان نہےں رہا۔ اس کی وجہ ےہ رہی ہے کہ ےہاں کے منتخب نمائندے ہمےشہ سے وفاق مےں بننے والی حکومتوں کے ساتھ شامل ہوتے رہے ہےں۔ اس سے پہلے وفاق مےں بننے والی حکومت ہی صوبے مےں بھی حکومت بناتی آئی ہے۔ ہماری سےاسی تارےخ مےں پہلی دفعہ اےسا ہوا ہے کہ بلوچوں کی چھوٹی چھوٹی قوم پرست جماعتوں کو صوبے مےں اپنی حکومت بنانے کا حق دےا جارہا ہے۔ بدنصےبی سے بلوچستان اپنی 65سالہ سےاسی تارےخ مےں ناانصافی اور احساسِ محرومی کی چکی مےں پستا رہا ہے۔ اس سے پہلے وفاق نے ہمےشہ بلوچوں اور پختون قوموں کے حقوق کو نظرانداز کرنیوالی پالےسےاں بنائےں ہےں۔بلوچ عوام کے مسائل کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش تو کےا کرنا تھی اُلٹا انھےں طاقت کے زور پر دبانے کا بندوبست ہی کےا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی جگہ جب بغےر کسی حکمتِ عملی کے طاقت کا اندھا استعمال کےا جائے گا تو وہاں عدم استحکام بھی ہو گا اور اس جگہ کا امن بھی برباد ہو جائیگا اور اسی بدامنی سے وہاں باغی عناصرکو اپنی سازشی کاروائےاں کرنے کا موقع ملے گا۔ اےسی صورتحال کا فائدہ ہمےشہ دشمن اُٹھاتا ہے۔ سب جانتے ہےں کہ وہ کون سی طاقتےں ہےں جو بلوچستان مےں باغےوں کو پےسہ اور اسلحہ سپلائی کرتی ہےں لےکن گزشتہ حکومت کے ذمہ داروں نے کبھی اس دشمن کا نام لےنے کی جرات نہےں کی تھی۔ اےسا اس لےے بھی کےا گےا کہ سابقہ حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے سلسلے مےں کبھی سنجےدگی کا مظاہرہ ہی نہےں کےا۔ جو حکومتےں عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحےت نہےں رکھتےں وہ ےاتو ان مسائل کو دبانے کی پالےسی پر عمل پےرا رہتی ہےں ےاپھر عوام کو انکے مسائل کے گرداب مےں چھوڑ کر خود کو لاتعلق کرکے صرف تماشائی کا کردار اداکرنے لگتیں ہےں اس ضمن مےں سابقہ حکومت کا کردار بھی تماشائی جےسا ہی تھا۔ اگر کسی بھی حکومت نے بلوچی عوام کے مسائل کی حقےقت کو سمجھنے کی سنجےدہ کوشش کی ہوتی تو حالات مےں اس قدر بگاڑ کی صورت پےدا نہ ہوتی۔
ےہ بھی پہلی بار دےکھنے مےں آ رہا ہے کہ ن لےگ کی قےادت نے سرداری نظام کی بجائے عام بلوچ اور پختون قوم کے نمائندوں کو اےک پلےٹ فارم پر جمع کر کے انھےں حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ نوازشرےف نے اقتدار کی سےاست کو ترک کرکے اور مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اےثار کے جس جذبے سے کام لےا ہے اس سے انھوں نے بلوچوں کے دل جےت لےے ہےں۔ اب توقع کی جانی چاہےے کہ بلوچ اور پختون عوام بھی اپنی محبت نثار کرنے مےں ہم پر سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کرےنگے جس سے صوبے اور وفاق کے درمےان پائے جانے والے فاصلوں کو ختم کرنے مےں مدد ملے گی۔ اسکے جواب مےں وفاق کا سلوک بھی اُنکے ساتھ وےسا ہی ہونا چاہےے جےسا پنجاب اور سندھ کے ساتھ ہوتا ہے۔
جہاں تک پنجاب کی سابقہ حکومت کا تعلق ہے تو اسکے بارے ہم قارئےن کو ےاد دلاتے چلےں کہ گزشتہ دورِ حکومت مےں اےن اےف سی اےوارڈ کی تقسےم کے موقع پر پنجاب نے ہی اپنا حصہ کم کرکے بلوچستان کا حصہ بڑھا دےا تھا تاکہ اس سے وہاں کی تعمےر وترقی کی رفتار بڑھائی جاسکے اور عوام کو روزگار کے زےادہ سے زےادہ مواقع دستےاب ہوسکےں۔ اور انکی زندگی کا معےار بھی اتنا بلند ہوسکے جتنا کہ باقی صوبوں مےں رہنے والے عوام کا ہے۔ گوےا ہم کہہ سکتے ہےں کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے کام کا آغاز شہباز شرےف نے شروع کردےا تھا اور اب اسے انجام تک مےاں نواز شرےف نے پہنچا دےا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بہترےن انتخاب قرار دےا جارہا ہے۔ اہم بات ےہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب صوبے کو درپےش حقےقی مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہےں اور انھےں حل کرنے کیلئے پُرعزم بھی ہےں۔
ہم اُمےد کرتے ہےں کہ انکے دورِ حکومت مےںا نگوروں ، سےبوں اور خوبانی کی ےہ سرزمےن امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ پھلوں کے علاوہ بلوچستان کی سرزمےن جو بے بہا قدرتی مادنےات کے ذخائر سے مالا مال ہے اس سے بھی استفادہ حاصل کےا جائے گا جس سے صوبے کے ساتھ ساتھ سارے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے مےں مدد ملے گی۔
   

ای پیپر دی نیشن