پانج جون کی تپتی دوپہر کی ڈھلتی ہوئی شام کو ایوانِ صدر کے یخ بستہ ماحول میں، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حلف برداری کی پروقار تقریب کے شرکاءزرق برق ملبوسات میں چہروں پر ہشاشت بشاشت اور مسکراہٹ سجائے ہوئے شامل تھے۔ اگلی نشستوں پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف کو انکے پسندیدہ ترین پیرہن میں براجمان دیکھ کر تصورمیں آج سے سوا پانچ سو سال قبل کی تقریب کی فلم چلنے لگی۔”2 جنوری 1492ءکو اندلس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ دوپہر مسلمانوں پر بھاری تھی۔ اس شام پہلی بار مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی نہیں دی۔ اسکے بجائے ہرطرف مسلمانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں، بے حمیتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ مصاحبین سمیت معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازبیلا اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ملی غیرت دشمن کے قدموں میں ڈھیر کرنیوالی تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ ، شاہی خاندان کے افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ انکے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے دمک رہے تھے“ ۔گیلانی ٹائی لگا سوٹ ،راجہ سنہری بٹنوں والی واسکٹ زیب تن کئے ہوئے تھے۔ لشکارے مارتے بٹن شاید سونے کے ہوں۔اس بار انہیں مسند اقتدار نصیب نہ ہوا تو کیا ہوا‘البتہ دونوں کے پاس رینٹل منصوبوں، درجنوں وزارتوں، سی این جی سٹیشنوں، بجلی کنکشنوںاور کنٹریکٹ ملازمتوں وغیرہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ سونے کے بٹنوں اور سات آٹھ لاکھ کے سوٹوں پر ہی کیا موقوف انکے گھروں میں تو سپون فورک، چمٹا، پھوکنی اور حقے کی چلم سمیت استعمال کی ہر چیز سونے کی ہو سکتی ہے۔ تقریب میں موجود یہ دونوں چہرے ہر حکمران کیلئے عبرت کا سامان اور سبق لئے ہوئے تھے۔انہوں نے میرٹ اور دیانت کو معیار بنایا ہوتا تو وہ اپنے صدر سے حلف لے رہے ہوتے۔میا ں نواز شریف نے انتخابی مہم میں لوگوں سے جو وعدے کئے ان کو ایفا ءکرنے میں سرخرو نہ ہو سکے تو اگلی ٹرم کا حلف کوئی اور لے رہا ہوگا۔گورنر ہاﺅس میں حلف برداری کے موقع پر جہاز سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس پر چھوٹے شیر نے اگلے روز ناراضی اور ناگواری کا اظہار کیا۔ ایک روز قبل اخبارات میں خبر موجود تھی ۔جس سے وہ لاعلم رہے ۔ سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ کا تختہ کیا گیا تو اس سے بھی شیروں نے ایسی ہی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ عظیم الشان خوشی کے موقع پر اپنی جیب سے پھول کیا ہزار ہزار کے نوٹ بھی برسائے جائیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔دل قومی خزانے کے بے دریغ استعمال پر کُڑھتا ہے ۔میاں نواز شریف طویل عرصے کی صعوبتوں کے بعد اقتدار میں آئے تو عوامی توقعات کے عین مطابق انہوں نے بچت اور میرٹ کو اصول بنانے کا عزم ظاہر کیا۔انکے وزیر اعظم ہاﺅس میں قیام کے اٹل فیصلے کی بے کنا ر تحسین کی گئی۔ لیکن یہ جذبہ وزیر ِ اعظم ہاﺅس کے آفتاب کی چکا چوند دیکھ کر سرد پڑگیا۔مختصر کابینہ لانے کا عہد کیا گیا تھا۔ پہلی کھیپ میں 25وزیر اور 4معاونین خصوصی بنائے گئے ہیں۔ کچھ وزراءانرجیٹک ہیں تو کئی ایسے بھی جو مسلم لیگ ن کی سبکی کا باعث بنتے رہے اور کچھ کے مشوروں نے میاں صاحب کوجیل اور جلاوطنی تک پہنچا دیا۔امیر مقام کو وزیر اعظم کا مشیر مقرر کیا گیا ہے انتخابات میں عوام نے مشرف کی یادگاروں کو نقش کہن سمجھ کر گرا اور مٹا دیا۔ان میں ایک امیر مقام بھی تھے ۔تہمینہ دولتانہ الیکشن ہار گئیں ان کو خصوصی نشستوں پر ایم این اے بنا دیا گیا۔ایسا ہر پارٹی میں ہوتاہے ۔جو الیکشن ہار کر بھی قائدین کے دل سے نہیں نکلتے ان کو سینٹر بنا دیا جاتاہے۔یہ عوامی مینڈیٹ کے سامنے تسلیم خم ہے یا اسکی توہین؟ اس سے زیادہ ووٹر کے جذبات و احساسا ت کا کیا خون ہو سکتا ہے!اتفاق سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حلف کی تقریب اور وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت انرجی کانفرنس ایک ہی وقت میں تھی سہ پہر چارسے شام سات بجے تک لاہوریئے پروٹوکول کی ٹریفک کے عذاب میں جکڑے رہے ۔ مسلم لیگ ن کی جیت پر متوالے جشن مناتے ،مٹھائیاں بانٹتے اور تحسین کے نعرے لگاتے رہے۔ میرٹ کا گزشتہ حکمرانوں کی طرح جنازہ نکلتا رہا تو انہی متوالوں کے ہاتھوں میں پکڑے پھول پتھر بن جائینگے اور تحسین کے نعرے زبان سے انگارے بن کر نکلیں گے ۔ہفتے کی چھٹی ختم کرنے جیسے بےشمار اچھے فیصلے ہونگے لیکن میرٹ سے ہٹ کر ہونیوالے چند فیصلے ووٹر کو عمران خان کی پی ٹی آئی کے قریب کرتے چلے جائینگے۔ہم تو ویسے بھی بے صبرے لوگ ہیں ۔اڑھائی تین سال میں حکمرانوں شکلیں دیکھ کے تنگ آ کر تبدیلی کی خواہش کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ عرب ممالک میں شاہی آمریت کامیابی سے چل رہی ہے ۔ہمارے ہاں جمہوریت بھی ایک ستم دکھائی دیتی ہے ۔اسکی وجہ ہمارے حکمرانوں کے غیر جمہوری روئیے ، میرٹ سے ہٹ کر فیصلے اور عوام سے دوری ہے۔ صحرائے عرب کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور مملکتوں میں شہر سے سیکڑوں میل دور بیاباں میں بسنے والوں کو بجلی گیس فون سڑک کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔تعلیم اور علاج فری ہے۔ہم شہروں میں بھی بجلی گیس اور پانی جیسی سہولتوں سے محروم جو مغرب اور عرب ممالک میں قدیم ہو چکی ہیں۔غریب کو علاج میسر نہیں جبکہ اعلیٰ طبقہ اپنا علاج بیرونِ ممالک سرکاری خرچ پر کراتا ہے۔وسائل کی کمی نہیںضرورت توازن کی ہے ۔ایک آدمی پر بیرونِ ملک علاج پر ایک کروڑ روپیہ خرچ آتا ہے۔ اس سے اپنے ملک میں ہزاروں مریضوں کا علاج ہو سکتا ہے بشمول اسکے جو بیرون ملک علاج کراتاہے۔یہی طریقہ دوسرے اداروں اور شعبوں میں بھی رہنما اصول بن سکتا ہے۔عوامی نفرت سے بچنے کیلئے میاں صاحب کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔جتنے بنا لئے اتنے ہی وزیر کافی ہیں۔انہی کی اہلیت کو پالش کیا جائے جو توقعات پر پورا نہیں اترتااسکی چھٹی اور نیا لانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے ضرورت سے قدرے بڑی کابینہ کی غلطی کا کفارہ ادا ہو گا اور دوسرے وزیر مسائل سے نمٹنے کی انتھک کوشش کرینگے۔