قومی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ کے وجود میں آنے کے بعد قوم اب اس امید پر ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جن منصوبوں کا اعلان ملک میں تبدیلی لانے کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ اب اس پر کب اور کس طرح عمل کیا جائیگا؟ خوش آئند بات ہے کہ میاں نواز شریف نے بجلی کا بحران حل کرنے کے ہنگامی اقدامات کو عملی شکل دیکر قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کر دیا ہے اس بحران کو حل کرنے میں یقیناً وقت درکار ہے ماضی میں قوم کے ساتھ ہر سطح پر خوب کھلواڑ ہو چکا ہے۔ قومی خزانہ لوٹ مار کا شکار ہو کر آج خالی پڑا ہے قوم کا ہر فرد مقروض ہے۔ بیرون ملک بسنے والے لاکھوں تارکین وطن اس امید پر ہیں کہ نئی حکومت ملک میں سرمایہ کاری کیلئے فضا ساز گار بنائے اور امن و امان کی صورت حال میں بہتری لا کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرے۔ قومی انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں نے اقربا پروری اور موروثی سیاست کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر عمل درآمد کرے۔
بیرون ملک بسنے والے لاکھوں تارکین وطن کی صفوں میں بے پناہ صلاحیتوں والے انجینئرز، ریسرچرز، ڈاکٹر، آئی ٹی اسپیشلسٹ، ٹیچر اور اکاﺅنٹنٹس سے وابستہ نوجوان اپنے ملک واپس آکر خدمات سرانجام دینے کے خواہش رکھتے ہیں یہ تمام قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں نئی حکومت کو ان کی رہنمائی کرنی چاہئے اور ملک میں میرٹ اور قابلیت کو اولیت دیکر سفارشی اور سیاسی مافیاز کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ وفاقی وزرا کو اپنے محکموں کی کارکردگی میں انقلابی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور عوام کے ساتھ مسلسل رابطے میں بھی رہنا ہو گا۔ نئے نویلے وزیراطلاعات و نشریات محترم پرویز رشید صاحب کا ٹیلی فون ابھی سے ہی”نو رپلائی“ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ خدا خیر کرے وزیراطلاعات کو اپنا قلمدان مبارک ہو بقول خواجہ حافظ شیرازی کے:....
”عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکل ہا“
عشق پہلے پہلے تو آسان لگتا ہے مگر اس میں مشکلات آگے چل کر آتی ہیں خدا کرے ہماری نئی حکومت اپنی تبدیلی والی منصوبہ بندی پر قائم رہے اور آنے والے دنوں میں تبدیلی کے آثار پیدا ہوں اور قوم یہ تبدیلی محسوس بھی کرے کم از کم میاں شہباز شریف کی تیسری مرتبہ پنجاب کی وزارت اعلی کے دور میں یہ تبدیلی کا نعرہ یقیناً عملی شکل اختیار کریگا۔ چند سال قبل لفافہ جرنلزم حکمرانوں اور صحافیوں میں زیر بحث رہا ہے جو کہ بعد میں جرنلزم کے شعبے میں اس حد تک آگے چلا گیا کہ اسے سرکاری سطح پر سیکرٹ فنڈز کے نام سے پکارا جانے لگا جن میں صحافیوں کو صدر اور وزیراعظم کے ہمراہ غیر ملکی دوروں میں ساتھ لے جاکرنوازنے کی روایت نے جنم لیا اور اخبارات کو حکومتی حمایت میں مضامین اور تجزیے موصول ہونے شروع ہوئے جو کہ لفافوں کی غیبی مدد سے جاری کروائے جاتے تھے۔ اب یہ تمام سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ غیر ملکی دوروں میں صحافیوں کی کھیپ ساتھ لے جانا یہ طریقہ کار بھی ختم ہونا چاہئے بلکہ اب وفاقی اور صوبائی سطح پر ہر وزارت میں ترجمان مقرر ہونے چاہئیں جو کہ صحافیوں کو مستقل بنیادوں پر بریفنگ کا سلسلہ اپنائیں اس ضمن میں وزارت اطلاعات کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسری جانب اخبارات کی تنظیموں جن میںCPNE اور APNS شامل ہیں یہ میڈیا کیلئے از سر نو ضابطہ اخلاق تشکیل دیں اور ان پر عمل کروایا جائے کردار کشی کی کسی حالت میں بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے گزشتہ چند سالوں میں الیکٹرانک میڈیا نے جس تیزی کے ساتھ پاکستان میں اپنا نیٹ ورک وسیع کیا ہے اس نے یقیناً ملکی سیاست میں انقلاب برپا کیا ہے۔ آج ایک گھر میں ووٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بھی ہے اور ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بھی اپنی جگہ برقرار ہے اور دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ ناقص کارکردگی بھی قوم پر واضح تھی یعنی یہ سارا کمال الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز اور دیگر تحقیقاتی پروگراموں کا ہے لیکن ساتھ ہی عوام کے نچلے طبقے میں جہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے وہاں اس میڈیا نے عوام کو بھارتی کلچر کی جانب بھی راغب کیا ہے لہذا موجودہ نئی حکومت کو اس ضمن میں بھی توجہ دینا ہو گی اور ملک میں بڑھتے ہوئے بھارتی ثقافتی کلچر کے طوفان کو بھی بند کروانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی عوام کے نچلے طبقے میں جنگی بنیادوں پر تعلیم کو نہ صرف عام کرنا ہو گا بلکہ حصول تعلیم کوآسان بنانے کے اقدامات بھی کرنے ہونگے ہر سطح پر کرپشن جو کہ اب کھلی کتاب کی مانند ہے اس کے خاتمے کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں دوسرا بڑا مسئلہ سرکاری اور نجی اداروں میں سادگی کے اصولوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ حکومت احکامات کے تحت سادگی کو بنیاد بنا کر قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ قوم کے فلاحی منصوبوں پر صرف کیا جا سکتا ہے۔ جس پر یقنیاً وزیراعظم میاں نوازشریف اپنی پالیسی تقریر میں انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے اقدامات کا اعلان کر کے قومی فریضہ ادا کریں۔