کیا اب صرف ننگیلی کا انتظار ہے

اٹھارہویں صدی ختم ہورہی تھی اور ہندوستان میں انگریزوں کی پیشرفت تیزی سے جاری تھی۔ ریاستیں مرکز سے آزاد اور صوبیدار خودمختار ہونے لگے تھے اور تاج مغلیہ کے شہنشاہ ہند کا ”جاہ وجلال“ سمٹ کر محض دلی تک محدود ہوچکا تھا۔خود مختار ہونے والی ریاستوں میں ظلم و بربریت کی آگ تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ اِس آگ کو بجھانے کیلئے دلی سرکار تو پہلے ہی بے دست و پا ہوچکی تھی اور انگریز اپنی ”سیاسی“ مجبوریوں کی وجہ سے اِس ظلم سے مسلسل چشم پوشی کررہے تھے۔مختلف ریاستوں میں ظالمانہ ٹیکسز اور محاصل نے رعایا کا جینا حرام کردیا تھااور لوگوں کو سانس لینا بھی دشوار ہوا جاتا تھا۔ ستم گزیدہ ان ریاستوں میں ایک ریاست ہندوستان کے انتہائی جنوب میں واقع ٹریونکور کی ریاست تھی، جہاں انسانیت سسکتی تھی تو روئے زمین پر کوئی اس کی سسکیاں سننے والا بھی نہ ملتا تھا۔ یہ ریاست ہندوستان کی امیر ترین ریاستوں میں بھی شمار ہوتی تھی۔اس کے خزانے لبالب بھرے ہوئے تھے اور یہ خزانے ایسے ہی نہ بھر گئے تھے ۔ خزانوں کا بھرنا ریاست کے عمال کی ”محنت شاقہ“ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ یہ تو اُن ظالمانہ ٹیکسز کی وجہ سے تھا جو اُس ریاست کی چھوٹی ذات کی رعایا پر عائد کیے گئے تھے۔ مثال کے طور پرٹریونکور میں آباد دِلت بھاری ٹیکس ادا کیے بغیر شادی نہ کرسکتے تھے۔بچے کو جنم دینے سے پہلے دلت والدین کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا، ورنہ دائی کو زچگی میں مدد کی اجازت نہ ہوتی اور زچہ پڑی تڑپتی رہتی۔شودر کی موت پر مردے کا ”کریا کرم“ اس وقت تک نہ کرنے دیا جاتا جب تک ”مردہ ٹیکس“ ادا نہ کردیا جاتا، چاہے مردہ بو ہی کیوں نہ چھوڑنا شروع کردیتا ۔ مختلف بیماریوں کا علاج کرانے پر بھی ٹیکس تھا۔ مچھیروں کی کشتیوں ، کسان کے ہل اور چھکڑوں پر بھی ٹیکس تھا۔ دھوپ اوربارش سے بچاو¿ کیلئے چھتریاں تاننے اور گھروں اور دکانوں کے سامنے چھاتے لگانے پر بھی سرکار کے خزانے میں بھتہ دینا پڑتا تھا۔مونچھ رکھنا صرف ”بڑی“ ذات کے برہمن مردوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور اگر ”نیچ“ ذات کا کوئی شخص مونچھیںرکھنا چاہتا تو اسے ”مونچھ ٹیکس“ ادا کرنا پڑتا تھا ورنہ بیچ چوراہے میں پکڑ کر اس کی مونچھیں مونڈھ دی جاتی اور سر کے بال کاٹ دیے جاتے۔ دلت قوم کی خواتین کیلئے پردہ کرنے اور سر پر اوڑھنی لینے پر بھی ٹیکس تھا ورنہ گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے حکومتی غنڈے اُن گھونگھٹ نوچ لیتے اور اوڑھنیاں کھینچ لی جاتیں۔دلت خواتین کیلئے سینہ ڈھانپا ”عیاشی“ سمجھا جاتا تھا اور کوئی دلت خاتون ”ٹیکس“ ادا کیے بغیر سینہ نہیں ڈھانپ سکتی تھی۔ دلت خواتین صوبیدار کو خصوصی ٹیکس ”ملاکرم“ ادا کرتیں تو اُنہیں نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت ملتی، ورنہ پیٹ کے جنے اُن کے سامنے سسکتے اور بلکتے رہتے لیکن دلت ماو¿ں کو بچوں کے پیٹ میں خوراک انڈیلنے کی اجازت نہ دی جاتی اور جو کوئی ٹیکس ادا نہ کرتا یا چوری چھپے ان ”ٹیکس قوانین“ کی خلاف ورزی کرتاہوا پایا جاتا، اُسے نشان ِ عبرت بنادیا جاتا۔ لیکن جس طرح ہر ظلم اور ہر ظالم کو ایک دن اپنے انجام کو پہنچنا ہوتا ہے، اسی طرح ”ملاکرم“ کے ظالمانہ ٹیکس کے خلاف کیرالہ میں کیرتھلہ کی ننگیلی نامی ایک خاتون نے پہلی آوازانیسویں صدی کے آغاز میں اُٹھائی۔ننگیلی کو کہا گیا کہ ”ٹیکس“ ادا کیے بغیرمجمع میں جاتے ہوئے وہ اپنا سینہ ڈھانپ سکتی ہے نہ ہی اپنے بچے کو دودھ پلاسکتی ہے۔ننگیلی نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا۔ جب ”پراویتھیار“ نامی ٹیکس کولیکٹر نے ننگیلی کو ٹیکس ادا کرنے کا کہا تو غربت کی ماری ننگیلی اندر گئی اپنی چھاتیاں کاٹ کر کیلے کے پتوں میں رکھ کر ٹیکس کولیکٹر کو پیش کردیں۔ کہا جاتا ہے کہ خون بہنے سے ننگیلی تو اُسی شام مر گئی، لیکن اپنے خون سے اس ظالمانہ ٹیکس کے خاتمے کا سبب بھی بن گئی۔
رعایا کے خون اور پسینے سے حاصل ہونے والے ”ٹیکس“ کی یہ ساری رقم حکومتی خزانے میں جاتی اور حکومتی خزانہ چھپانے کیلئے سری پدمنا بھاسوامی کا آشرم استعمال کیا جاتا۔ اِس آشرم میں تہہ در تہہ دہری دیواروں میں خزانے کو اس طرح چھپاکر رکھا جاتا کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہوئی۔چند برس قبل اس خزانے کا سراغ لگایا تو ہندوستان سمیت ساری دنیا اس خزانے کی مالیت پر چونک اٹھی۔ اِس خزانے میں سونے کی اشرفیوں سے بھرے سینکڑوں تھیلے، قیمتی ہیرے اور نادر جواہرات، اٹھارہ اٹھارہ فٹ لمبا سونے کے گلوبند، کئی کلو وزنی نقرئی زیورات، سونے کی ٹھوس مورتیاں اور دیگر قیمتی اور مہنگے نوادرات بھی برامد ہوئے۔ بھارتی صحافی ملاویکہ ویلایانیکل کے مطابق اس خزانے کی مالیت پچاس کھرب بھارتی روپے لگائی گئی۔ اتنے بڑے خزانے نے بھارتیوں کو ششدر کرکے رکھ دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتوں کی جانب سے جیسے بھی اور جتنے بھی ٹیکس لگالیے جائیں، اس سے خزانے تو بھر ہی جاتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ بھی ہے کہ یہ خزانے کبھی کسی کے کام نہیں آئے۔ نہ عوام کے خون پسینے کی کمائی چھین کر خود خزانہ بھرنے والے کے اور نہ ہی ان کی اولاد کے کام آئے۔ اسی طرح کے ٹیکسز لگاکر پاکستان میں بھی خزانہ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ سرکار کے اللے تللے جاری رہیں۔ اگر ایسا نہیں تو کیا وفاقی وزیر خزانہ بتانا پسند کریں گے کہ وہ کون سا ٹیکس ہے جو ٹریونکور میں تو لاگو تھا لیکن آج پاکستان میں نافذ نہیں ہے؟حقیقت تو یہ بھی ہے کہ نہ یہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا زمانہ ہے اور نہ ہی ہم کیرالہ میں رہتے ہیں ، اسکے باوجود پاکستان میں ٹریونکور کی ”نیچ ذات“ والا ہر ٹیکس لاگو ہے۔ کیا وفاقی وزیر خزانہ تردید کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ پاکستان میں ”ملاکرم“جیسا ظالمانہ ٹیکس نہیں ہے؟افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس نظام کو بہتر بناکر دولت مندوں سے براہ راست ٹیکس وصولنے کی بجائے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے غریبوں پر بلواسطہ ٹیکسز میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں نفسیاتی مسائل، فحاشی اور خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب مہنگائی کے مطابق آمدن میں اضافہ نہیں ہوگا تو دلتوں کے پاس دو ہی راستے رہ جائیں گے کہ خود مر جائیں یا اپنی عزت و غیرت کا جنازہ نکال دیں۔
قارئین محترم! کیرالہ میں جہاں ننگیلی کا واقع پیش آیا، اب اسے مولاچی پرمبو (ملاکرم بی بی کا دیس) کہا جاتا ہے۔موت کے منہ میں جانے سے پہلے ننگیلی نے ٹیکس کولیکٹر کو ایک جملہ کہا تھا۔ جملہ کیا تھا تازیانہ تھا ، جس کی تاب وہ ٹیکس کولیکٹر بھی نہ لاسکا اور اس نے اگلے روز ہی خودکشی کرلی تھی۔ آج اگر ننگیلی ہوتی تو وہ پاکستان میں خزانہ بھرنے کی لگن میں مگن حکام کے سامنے دو سو سال پہلے والا اپنا وہی جملہ ضرور دہراتی کہ”تمہارے حکم کے بغیر اگر یہ چھاتیاں میرے بچے کا پیٹ نہیں بھر سکیں تو جاو¿ اِنہیں لے جاو¿ !شاید تمہارا خزانہ ہی بھرجائے!“۔ افسوس صد افسوس! خط غربت کے نیچے لٹکتے پچاس فیصد عوام کو ریلیف دینے اور بلواسطہ ٹیکسز کم کرنے کی بجائے وفاقی وزیر خزانہ کس فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ”دلتوں“ کی تعداد نو کروڑ ہوگئی ہے! دلت تو پاکستان میں بہت ہوگئے سرکار!کیا اب صرف ننگیلی کا انتظار ہے؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...