وفاقی بجٹ ،شعبہ تعلیم اور شرح خواندگی

سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں تعلیمی ترقی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے افسوس ہے کہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اقتدار میں ہونے کے باوجود قوم سے کئے گئے وعدوں کوایفا نہ کرسکے ، گو اب شعبہ تعلیم صوبائی مسئلہ ہے باوصف وفاقی بجٹ میں شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں…جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے عوام کو تعلیم و تربیت کی جانب راغب کرنے کیلئے کئی منصوبہ جات پر کام ہوا مگر یہ منصوبے ادھورے ہی رہے۔ حکومت نے شرح خواندگی کا مفہوم یہ متعین کر رکھا ہے کہ جو شخص اپنا نام پڑھنا اور لکھنا جانتا ہو اس کو خواندہ شخص کہا جائے۔ 1950ء سے سکول کی ریگولر تعلیم کے علاوہ بعد از نماز عصر تعلیم ِ بالغاں کے نام سے مرد حضرات کیلئے شہروں کے گلی کوچوں اور دیہات میں سنٹر قائم کیے گئے۔ ٹیچر حضرات کو میز کرسی اور کتب فراہم کرنے کے علاوہ کچھ ماہانہ تنخواہ بھی ادا کی جاتی رہی۔ بعد میںتعلیم ِ بالغاں سنٹروں پر ریڈیو مہیا کئے گئے اور 1970ء کے بعد مذکورہ سنٹروں پر ٹی وی سیٹ بھی فراہم کر دیئے گئے تاکہ مذکورہ سنٹروں کے طالب ِعلم دلچسپی سے سنٹروں پر جا کر تعلیم کیساتھ ساتھ خبریں ڈرامے بھی دیکھ اور سن سکیں مگر اس تمام عرصے میں مذکورہ اداروں کے ذریعے شرح خواندگی میں ایک فی صد بھی اضافہ نہیں ہوا۔ بلکہ حکومت کا بجٹ ضائع ہوتا رہا۔ ان اِداروں کے اساتذہ فرضی نام اور حاضریاں لکھتے اور لگاتے اور ماہانہ مشاہرہ وصول کرتے رہے۔ چیکنگ کا کوئی نظام نہ تھا۔پھر جونیجو کے دور میں روشنی سکول کے نام سے مذکورہ اِداروں کو چلایا گیا لیکن فرق یہ پڑا کہ تعلیم ِ بالغاں کے نام سے ادارے بعد از نمازِعصر نام نہاد تعلیمی مشاغل شروع کرتے تھے اور روشنی سکول دن کو 12بجے کے بعد کھلتے تھے۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ روشنی سکولوں میں دس سال کی عمر سے بڑے بچے داخلہ حاصل کرتے تھے۔ شروع شروع میں چند طلباء مذکورہ اِداروں میں جاتے دکھائی دیئے مگر اس منصوبہ کا بھی حشر تعلیم ِ بالغاں جیسا ہی ہوا۔ طلباء کے فرضی نام اور جعلی حاضریاں چیکنگ کا نظام مفقود۔ اسکے ساتھ ساتھ ضیاء الحق نے مسجد مکتب نام سے بھی ملک کی شرح خواندگی بڑھانے کیلئے مساجد کے امام صاحبان کی کچھ تنخواہیں مقرر کر کے ایسے بچوں کیلئے منصوبہ شروع کیا جو کسی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے تھے۔ مذکورہ منصوبہ بھی دور چار برس کے بعد ختم ہوا۔ پھر حکومت ِ پاکستان نے باقاعدہ ایک نیا محکمہ لٹریسی کمیشن کے نام سے بنا دیا۔ تمام صوبائی حکومتوںنے مختلف ناموں سے مذکورہ محکمہ کے تحت درس و تدریس کا کام شروع کروایا۔ اس محکمہ کا محکمہ تعلیم سے الگ سالانہ بجٹ ہے مگر اس کا رزلٹ بھی سوالیہ نشان ہے۔
مذکورہ بالا ناموں سے ملک کی شرح خواندگی بڑھانے کے لیے جو بھی کام آج تک ہوا ہے اس سے حقیقی طور پر شرح خواندگی تو نہیں بڑھ سکی مگر بہت سے لوگوں کو روزگار مل گیا، یہ تمام منصوبے بیوروکریٹس کے بنائے ہوئے تھے اور ہیں۔ ملک کے دانشور طبقہ سے کبھی مشاورت نہیں کی گئی۔ کیونکہ دانشور طبقہ کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ سیاسی چالبازیوں اور بیوروکریسی کی منصوبہ بندی عام طور پر کھانے پینے کے مسائل ہوتے ہیں۔سکول نہ جانے والے بچے اور خواتین و حضرات ریگولر تعلیم و تدریس کا حصہ نہیں بن سکتے وہ سب روٹی کمانے اور دیگر گھریلو معاملات میں مصروف ہوتے ہیں بدیں وجہ عام طور پر فرضی کام ہی چلتا ہے ۔ حکومتی ارباب بست و کشاد کی نیک نیتی پر اُنگلی نہیں اٹھائی جا سکتی لیکن ہر ایک منصوبہ پر عمل درآمد کرنے اور کروانے والے حضرات کی گفتارو کردار کا کیا کیجئے گا؟کاغذات میں شرح خواندگی خواہ جو بھی ظاہر کی جا رہی ہے عملی طور پر کیا ہے؟ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سابقہ ایک دو برس میںایک این جی او نے کلا س اول تا دہم تدریس صرف 2سالوں میں مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ 2برس بعد اُن کے ہاں تعلیم پانے والے طلباء میٹرک کے امتحانات میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے قارئین کی سمجھ سے یہ امر بالا تر ہے کہ دس سالہ ریگولر کورس پڑھ کر میٹرک کا امتحان دینے والے طلباء کا رزلٹ چالیس فی صد کے قریب آتا ہے۔صرف دو سال میں پہلی کلاس سے میٹرک تک کا کورس پڑھنے والے طلباء کی کامیابی کتنے فیصد ہو گی؟بہر حال توقع ہے مذکورہ این جی او کے منصوبہ سے اتنا ضرور ہوگا کہ حکومت نے خواندہ افراد کی جو تعریف (DEFINITION)متعین کر رکھی ہے کہ افراد اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہوں تو اُن کو خواندہ افراد کہا جائے گا۔مذکورہ این جی او کے طلباء کم از کم اس زمرے میں ضرور شمار ہو سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن