اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)جوڈیشل کمشن میںالیکشن کمشن کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری شیر افگن اوردیگر کا بیان قلمبند کیا گیا ہے، فریقین وکلاء نے ان پر جرح مکمل کرلی ہے،ق لیگ کے گواہ آج پیش ہوں گے تحریک انصاف کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ آج کمشن کو آگاہ کریں گے کہ عمران خان کب پیش ہوں گے، کارروائی کے دوران شیر افگن نے بتایا کہ 2013کے الیکشن ڈے پر رات گیارہ بجے تک الیکشن کمشن کو کوئی رزلٹ موصول نہیں ہوا تھا رات بارہ بجے کے بعد لوئر دیر سے پہلا نتیجہ موصول ہوا تھا۔ تاہم میں اس وقت یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ الیکشن کے صبح چھ بجے تک کتنے رزلٹ آئے تھے۔ جب الیکشن کے بعد جائزہ رپورٹ کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا تو اس کے بعد کسی جماعت نے رابطہ نہیں کیا۔ہم نے 2013 کے الیکشن سے قبل ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں، ریٹرننگ افسروںاور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسروں اور ساڑھے چھ لاکھ پولنگ سٹاف کو ٹریننگ دی تھی۔ ڈسٹرکٹ الیکشن افسر لاہور شبر عباس زیدی نے اپنے بیان میں کہا کہ این اے 125 لاھور کے بارئے میں میں نے تین دسمبر 2014کو رپورٹ بنائی تھی ،اس حلقے میں چار لاکھ 29ہزر115ووٹرز تھے، این اے 125سے متعلق رپورٹ معمول سے ہٹ کر تھی ،انہوں نے تسلیم کیا کہ ہم نے پانچ لاکھ کی بجائے ساڑے پانچ لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے تھے۔چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل انکوائری کمشن نے سماعت کی تو شیر افگن نے بتایا کہ الیکشن پر جو مقناطیسی سیاہی استعمال کی گئی اس میں مقناطیسی عنصر موجود تھا اس کے بعد ہی وہ سیاہی پی سی آیس آئی ار نے تیار کر کے دی تھی۔18 لاکھ 17 ہزار سے کچھ زائد بیلٹ پیپرز چھا پے گئے چھا پے گئے تمام بیلٹ پیپرز ریٹرنگ افسروں کو بھیجے گئے تھے۔ ریٹرنگ افسر یا ان کا کوئی نمائندہ پریس سے بیلٹ پیپر لے کر جاتا دیگر الیکشن میٹریل ریٹرنگ افسروں کو صوبائی الیکشن کمشن کی جانب سے بھیجا جاتا ہے، بیلٹ پیپرز کی تعداد ان کو رائونڈ فگرز میں لانے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ستمبر 2012میں الیکشن کمشن کی میٹنگ ہوئی تھی اس کے بعد متعدد اجلاس ہوئے جن کا آفس میں ریکارڈ ہو گا۔الیکشن کمشن نے فیصلہ کیاتھا کہ جتنے بھی بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے انہیں اگلے سینکڑہ میں رائونڈفگر کر کے چھا پا جائے گا۔ ہم ریٹرننگ افسروں سے مجموعی رزلٹ وصول کر تے ہیں فارم 16اور 17آرا وز سے لیا جاتا ہے۔ ایکشن پلان میں نظرثانی نہیں کی گئی۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے بیلٹ پیپرز کی لسٹ صوبائی الیکشن کمشنرز نے تیار کی تھی وہ آرا وز سے مشاورت کر تے تھے۔پی ٹی آئی کے وکیل حفیظ پیرزادہ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے شیر افگن نے کہا کہ الیکشن کمشن سے قبل وہ سپریم کورٹ میں ملا زم تھے اور مختلف ججز کے پرائیویٹ سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں سابق چیف الیکشن کمشنر ارشاد حسن خان کے دور میں انہیں الیکشن کمشن لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میںصوبائی الیکشن کمشنر ان سے ہدایات نہیں لیتے تھے۔ صوبائی الیکشن کمشنرز کو الیکشن کمشن ہدایات جاری کر تا تھا اگر چہ کچھ دستاویزات میرے دستخط سے جاری ہوئیں لیکن وہ بھی الیکشن کمشن کی ہدایات پر جاری کی گئیں۔ صوبائی الیکشن کمشن کی جانب سے براہ راست پرنٹنگ پریس کو بیلٹ پیپرز چھا پنے کا آرڈر دیا جاتا تھا اور اسلام آباد میں الیکشن کمشن کو اس کی صرف اطلاع دی جاتی تھی اورا س طرح اسلام آباد میں الیکشن کمشن سیکریٹریٹ کا بیلٹ پیپرز کی مطلوبہ تعداد کی چھپائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھافہرستیں جائزہ کے لیے الیکشن کمشن کے ارکان کے پاس آئیں یا نہیں اس بارئے علم نہیں۔ پولنگ ڈے پر فیڈ بیک حاصل کر نے کے لیے الیکشن کمشن کی کوئی کمیٹی نہیں لیکن الیکشن ڈے پر اسلام آباد میں رزلٹ وصول کر نے کا سیٹ بنایا گیا ہے۔ مجھ کو پی ٹی آئی کے دھرنے کے بارے میں صحیح معلوم نہیں کہ تاریخ کیا تھی لیکن اسے میں نے ٹی وی پر دیکھا الیکشن کمشن میں بیلٹ پیپرز کی لسٹ کی نظرثانی کے بارئے میں متعلقہ آدمی نہیں ہوں لیکن ان کی پرنٹنگ کے بارے میں نظرثانی نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کے وکیل عبدالرحمن صدیقی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو شنی میں الیکٹورل رول میں نظرثانی کی گئی ،اور نظرثانی شدہ یہ ساری باتیں الیکشن کمشن میں ریکارڈ میں موجود ہیں۔ پولنگ ڈے پر سینکڑوں شکایات ہوئیں جو نمٹانے کے لیے متعلقہ حکام کو بھیج دی تھیں۔ ڈسٹرکٹ الیکشن افسر لاھور شبر عباس زیدی نے اپنے بیان میں کہا کہ این اے 125 لاھور کے بارے میں میں نے تین دسمبر 2014کو رپورٹ بنائی تھی ،اس حلقے میں چار لاکھ انتیس ہزار اور ایک سو پندرہ ووٹر تھے میں نے متعلقہ آر اوز سے ریکارڈ لے کر رپورٹ بنائی تھی اور رپورٹ میں ٹائیپنگ کے علاوہ جو تصحیح کی گئی ہے وہ میں نے نہیں کی ،صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں اڑھائی لاکھ جبکہ دوسرے حلقے میں تین لاکھ بیلٹ پیپرز چھا پنے کی ڈیمانڈ آئی تھی۔اس حلقے سے خواجہ سعد رفیق نے الیکشن جیتا تھاہم نے این اے 125کے علاوہ اور کسی حلقے کے لیے بیلٹ پیپرز کو نہیں بڑھایا۔ این اے 125کے لیے جو بیلٹ پیپرز چھا پے گئے وہ نارمل سے کچھ زیادہ تھے،این اے 125کے بارئے میں رپورٹ معمول سے ہٹ کر تھی ،ہم نے پانچ لاکھ کی بجائے ساڑے پانچ لاکھ بیلٹ پیپرز چھا پے ،این اے 125کے نیچے دو صوبائی ا سمبلی کے حلقے بھی ہیں اور آر اوز کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے ووٹ چھا پنے کی جو ڈیمانڈ آئی وہی قومی اسمبلی کے حلقے میں بھی کر دیا گیا۔ پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی کے ڈپٹی منیجر محمد شبیر نے بھی بیان ریکارڈ کروایا۔ آئی این پی کے مطابق جوڈیشل کمشن کے 23ویں اجلاس میں بیشتر صوبائی حلقوں کے فارم15کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔ شیر افگن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ درست ہے کہ ستمبر 2012ء میں انتخابات سے متعلق ای سی پی کی میٹنگ ہوئی،اسکے بعد مزید میٹنگز بھی ہوئیں،بیلٹ پیپرز سے متعلق فہرستیں صوبائی الیکشن کمشنر پرنٹنگ پریس بھیجتے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے سوال کیا کہ کیا100 فیصد سے زائد ووٹنگ کی فافن رپورٹ پر تحقیقات کرائیں، جس پر شیر افگن نے جواب دیا کہ رپورٹ میں تھا کہ49 پولنگ سٹیشنز پر 100فیصد سے زائد ووٹ ڈالے گئے، ریٹرننگ افسروں سے فارم 14کے ریکارڈ طلب کئے تو پتہ چلا کہ ان سٹیشنز پر 42سے 47فیصد ٹرن آئوٹ تھا، کسی بھی پولنگ سٹیشن پر 100فیصد سے زائد ٹرن آئوٹ نہیں تھا، الیکشن کیلئے افسروں کے 6اور 7 ستمبر 2012ء کے اجلاس میں شریک ہوا، اپریل 2013ء کی رپورٹ بھی میں نے ہی مرتب کی تھی۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ 17کروڑ 20لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے، اس پر شیر افگن نے جواب دیا کہ صوبائی الیکشن کمشنر مجھ سے حکم نہیں لیتا تھا، اسے چیف الیکشن کمشنرکی جانب سے ہدایات دی جاتی تھیں،بیلٹ پیپرز کے متعلق فہرستیں صوبائی الیکشن کمشنر پرنٹنگ پریس بھیجتے ہیں، بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین بھی صوبائی الیکشن کمشنر کرتے ہیں، جو دستاویزات آتی ہیں، مجھے بطور ڈی جی ای سی پی مطلع کیا جاتا ہے، الیکشن کمشن ہر ریٹرننگ افسر سے حتمی نتائج وصول کرتا ہے۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا ستمبر 2012ء کے بعد بیلٹ پیپرز سے متعلق بھی میٹنگز ہوئیں، جس پر شیر افگن نے کہا کہ اس بارے مجھے معلوم نہیں۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمشن نے انتخابات کا ایکشن پلان تبدیل کیا تھا، جس پرشیرافگن نے کہا کہ جی نہیں، الیکشن کمشن میں نتائج وصول کرنے کیلئے سینٹر بنایا جاتا ہے،کمشن کے پاس بیلٹ پیپر کی چھپوائی دوبارہ چیک کرنے کا طریقہ کار نہیں، بیلٹ پیپرز کی تعداد کی تصدیق میں کمشن سیکرٹریٹ کا کردار نہیں، علم نہیں کہ انتخابی فہرستوں پر چیف الیکشن کمشنر ارکان نے غور کیا یا نہیں؟
این اے125 سے متعلق رپورٹ معمول سے ہٹ کر تھی، پانچ کی بجائے ساڑھے5 لاکھ بیلٹ پیپر چھاپے: ڈسٹرکٹ الیکشن افسر لاہور
Jun 09, 2015