لاہور (وقائع نگار خصوصی) ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے سید عادل گیلانی کی بطور کنسلٹنٹ ایڈوائزر پرائم منسٹر انسپکشن کمشن تعیناتی کا نوٹیفکیشن طلب کرنے کیلئے دائر متفرق درخواست پر وفاقی حکومت سے دو ہفتوں میں جواب اور نوٹیفکیشن طلب کرلیا۔ عدالت میں متفرق درخواست کی سماعت ہوئی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پرائم منسٹر انسپکشن کمشن کا قانون مارشل لاء آرڈر1958 کے ذریعے آیا تھا اور 1985میں اس میں ترمیم کی گئی اس قانون کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پرائم منسٹر انسپکشن کمشن میں صرف چئیرمین اور ممبر تعینات ہوسکتے ہیں اس میں کنسلٹنٹ یا ایڈوائزر کی کوئی گنجائش نہیں عدالت کو مزید بتایا گیا کہ سید عادل گیلانی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن دستیاب نہیں۔ انٹرنیٹ پر صرف یہ دستیاب ہے کہ وہ کنسلٹنٹ / ایڈوائزر پرائم منسٹر انسپکشن ٹیم ہیں۔ تعیناتی میرٹ سے ہٹ کر کی گئی ہے۔ ٹرانسپرینسی وفاقی اور صوبائی حکومت میں کرپشن کی نشاندہی کرتی ہے مگر اس تعیناتی کیس میں وہ پرائم منسٹر انسپکشن کمشن کا حصہ بن گئی۔ فاضل عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو معاونت کیلئے طلب کیا اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں پرائم منسٹر انسپکشن کمشن میں صرف چیئرمین اور ممبران تعینات ہوسکتے ہیں۔