ساجدحسین
ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ 9/11کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف چھڑنے والی جنگ میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا کسی اور ملک کو یہ زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔پاکستان نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا بھرپور کردار تو ادا کیا مگر جتنا جانی اور مالی خسارہ اس جنگ میں اٹھایا اس کی مثال شائد تاریخ میں نہیں مل سکتی۔جس طرح ارض پاک کی دلیر آرمی اور قوم نے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دیں ان کو لفظوں میں بیان کرنا آسان نہ ہو گا۔دہشت گردی کے ناسور کے خلاف لگ بھگ 14سال کی طویل جنگ لڑنا اور قربانیاں دینا پاک آرمی اور 18کروڑ عوام کا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ جو کہ شروع میں پوری دنیا کی جنگ تھی مگر بعد میں اکیلے پاکستان کو ہی لڑنی پڑی میں نہ جانے کتنے گھرانوں کے چراغ گل ہو گئے،نہ جانے کتنی عورتیں بیوہ ہو گئیں اور نہ جانے کتنی ماﺅں کی گودیں اجڑ یں ۔اگر جاری اس طویل جنگ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات قابل غور ہے کہ وہ کون سی ایسی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں جن کے باعث دہشت گردی کا ناسور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ہمسائیوں اور دیگر مخالف قوتوں کو الزام دے کر سائیڈ پر ہو جانا بہت آسان ہے اور اس بات کا تو کسی کم عقل انسان کو بھی اچھی طرح احساس ہے کہ دشمن سے خیر کی توقع رکھنا کہاں کی عقل مندی اور دانائی ہے کیونکہ دشمن تو پھر دشمن ہے موقع ملنے پر اگر معاف کر دے تو پھر اسے دشمن کہنا توبے جا ہو گا۔ ہمیشہ یہ ہی سننے میں آیا کہ غیر ملکی ایجنسیاں اور دیگر ملک دشمن قوتیں دہشت گردی کے پیچھے ملوث ہیں مگریہ بات آج تک سامنے نہیں آسکی کہ غیر ملکی ایجنسیاں اور دشمن قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب کیسے ہو جاتی ہیں چلو ایک دو دفعہ تو ایسا ممکن ہو سکتا مگر یہاں تو سال و سال بیت گئے۔ حقائق اور اصل محرکات کو انتہائی اور قریب سے جاننے کی ضرورت ہے۔آخرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس لمبی جنگ کا خاتمہ کیوں نہیں ہو سکا؟کیا دہشت گرد ہم سے زیادہ طاقتور ہیں؟کیا وہ ہماری آرمی سے تعداد میں زیادہ ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے؟اگر ان سب سوالوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی ہم سے ہی بھول ہوئی جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔جس معاشرے سے انصاف کا عنصر کھینچ لیا جائے تو وہاں محرومی فروغ پاتی ہے جہاں محرومی فروغ پاتی ہے وہاں بھوک اور نفرت جنم لیتی ہیں کیونکہ ایسے معاشروں میں امیر اور غریب کا فرق ہی اس حد تک بڑھ جاتا ہے جتنا کہ زمین کا آسمان سے فاصلہ۔طاقتور ہی قانون ساز اور قانون شکن ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی آسانی کے لئے چاہے تو این آر او متعارف کروا کر دودھ میں دھلا ہوا بن جائے یا اپنی منشاءکے مطابق آئین میں ترمیم کر کے تیسری دفعہ کرسی اقتدار پر براجمان ہو جائے جبکہ دوسری طرف بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی جو دن میں ایک وقت سے زیادہ کھانا کھائے بناءہی سو نے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ بات اپنی جگہ بجاءکہ انسان خطاءکا پتلا ہے کاش کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے ہی سبق سیکھ لیا ہوتا۔مگر افسوس کہ سبق سیکھنے کی بجائے غلطیوں پہ غلطیاں کئے جا رہے ۔افسوس کہ ہماری منتخب کردہ حکومتیں ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کو ایشوز کا رنگ نہ دیتیںتو شائد دشمن کو یہاں دہشت گردی کروانا اتنا آسان نہ ہوتا۔جب تک گھمبیر حالات کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق جو ریاست کی ذمہ داری ہوتی نہیں دئیے جاتے تب تک جتنے مرضی جتن کر لئے جائیں محرومیوںکا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔شائد انہیں محرومیوں اور بھوک کا فائدہ اٹھا کر ہمارا دشمن اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہا ہے ۔اور یہ بات ویسے بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کئے بناءکسی بھی ملک کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔نا انصافی ،بھوک اور افلاس کے خاتمے تک کوئی بھی جنگ چاہے اندرونی ہو یا بیرونی جیتنا تو درکنار لڑنا بھی نا ممکن ہے۔قصہ المختصر کسی بھی جنگی محاذ پر کامیابی کے لئے محاذ کے پیچھے بسنے والوں کی محرومیوں کا خاتمہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لئے سانس لینا۔اب وقت آگیا ہے کہ ہماری منتخب کی ہوئی حکومتوں اور سیاسی نمائندوں کو آنکھیں کھول لینی چاہئیں آپس کی تمام تلخیاں بھلا کر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک ایجنڈے پر متفق ہو جائیں کہ اپنے ہم وطنوں کی محرومیوں کا خاتمہ کر کے دشمن کو کمزور کرنا ہے اور دہشت گردی کا ناسور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑنا ہے کیونکہ اگروقت گز ر گیا تو تاریخ کا صیاد بہت بے رحم ہے ۔