ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر اورسمیع وبصیر ہے لیکن عملی طور پر عموماًاس عقیدہ میں اضمحلال آجاتا ہے کیونکہ جب ایک آدمی بندوں کے دیکھتے ہوئے گناہ نہیں کرتا توآخر وہ اللہ تعالیٰ کے دیکھتے ہوئے گناہ کیوں کرلیتا ہے روزہ اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کے عقیدہ کو پختہ کرتا ہے تصور فرمائیے ، روزہ دار ایک کمرہ میں اکیلا ہے ۔اسے سخت پیاس لگی ہے پینے کا ٹھنڈا پانی اس کے پاس موجود ہے لیکن وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں کیوں ؟
اسی لیے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا یہ مراقبہ پورا مہینہ جاری رہتا ہے تاکہ انسان اسے پوری زندگی کیلئے دل کی تختی پر کندہ کرلے کہ ’’میرا خدا مجھے دیکھ رہاہے‘‘جو مجھے روزہ توڑتے ہوئے دیکھ لے گا وہ رشوت لیتے یا کوئی بھی گناہ کرتے ہوئے بھی دیکھ لے گا۔روزہ ایک مخفی عبادت ہے جسے صرف بندہ جانتا ہے یااس کا رب کریم اسی لیے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الصوم لی وانا اجزی بہ روزہ میرے لیے ہے اسی جزا میں دیتا ہوں‘‘۔اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا مراقبہ ہر گناہ کی جڑ کاٹ دیتا ہے ۔
گناہ ہر جگہ ہر مقام پر اورہر وقت قابل ملامت ہے اس سے دامن بچانا ضروری ہے لیکن مشاہدہ ہے کہ روزہ دار معمول سے بڑھ کر حالت روزہ میں گناہوں سے اجتناب کرتاہے جھوٹ سے بچتا ہے غیبت سے احتراز کرتا ہے کسی کو گالی نہیں دیتا ہے اورجملہ فواحش ومنکرات سے دامن بچاتا ہے ماہ رمضان میںنیکیوں کا جذبہ اپنے جو بن پے آجاتا ہے روزہ دار ہر گناہ سے دامن بچاتا ہے ترک گناہ کی یہ مشق آدمی کو باقی سال بھی اسی طرح گزارنے کی ترغیب دیتی ہے اسی چیز کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشادفرمایا :
الصیام جنۃ واذا کان یوم صوم احدکم فلایرفث ولایغضب فان سابہ احد اوقاتلہ فلیقل انی امرء صائم’’روزہ ڈھال ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہوتواسے چاہیے کہ وہ گناہوں سے اجتناب کرے اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑے تووہ اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔(بخاری)
اگر کوئی آدمی روزے کی حالت میں بھی گناہوں سے اجتناب کی مشق نہیں کرتا تو اس کا روزہ بے معنی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے’’من لم یدی قول الزوروالعمل بہ فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ وشرابہاورجس آدمی نے جھوٹ بولنا اورجھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کا کھانا پینا چھوڑ دینے کی کوئی حاجت نہیںہے۔‘‘(بخاری)