اسلام آباد (خبرنگار) بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایوان بالا میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے چھوٹے صوبوں میں ترقیاتی فنڈز کم رکھنے اور نئے ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی کرنے پر شدید احتجاج کیا، پنجاب کے عوام کے لئے جو پروگرامز شروع کیے گے ہیں انہیں بلوچستان، سندھ اور خیبر پی کے میں بھی شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ بجٹ کو عوام دشمن قراردیا جس عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیاگیا حکومتی بنچوں کے ارکان نے بجٹ کو عوام اور کسان دوست قراردیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ بیروزگاری‘ عدم مساوات اور علاقائی ترقی میں فرق ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں‘ بیروزگاروں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے‘ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے۔ہر سال 20 سے 30 لاکھ نوجوان روزگار کمانے کے قابل ہوتے ہیں انہیں روزگار نہیں ملتا۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے، پچھلے نو ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تقریباً 50 کروڑ ڈالر رہی ہے۔ ہماری برآمدات 13 فیصد کم ہوئی ہیں حالانکہ اس کے برعکس ویت نام‘ بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ شرح سود میں کمی کا فائدہ پرائیویٹ بنکوں کو ہوا ہے۔ بنکاری شعبے میں قرضوں کا 70 فیصد حصہ حکومت 30 فیصد حصہ نجی شعبے کو مل رہا ہے۔ بجٹ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں 450 ارب روپے کا مختلف شعبوں کو ٹیکس استثنیٰ حاصل تھا جسے کم کرکے 300 ارب روپے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی بڑھانے اور ٹیکس استثنیٰ کے خاتمے کے لئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا ہے کہ طبقاتی اونچ نیچ نے ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے‘ پارلیمنٹ کو بااختیار بنانا چاہیے‘ خارجہ پالیسی پارلیمنٹ ہی بنائے۔ پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا جانا چاہیے۔ سینٹ کو اختیارات دیئے جائیں۔ خارجہ پالیسی پارلیمنٹ ہی بنائے۔مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کا ہدف مسلسل تین سال حاصل نہ ہونے کے معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت‘ حکومت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں‘ زرعی پیداوار میں کمی لمحہ فکریہ ہے‘ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘ بیروزگاری کے خاتمہ اور محصولات کی وصولی پر توجہ دی جائے۔ تین سال سے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا‘ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کی پیداوار میں کمی ایک فکریہ بات ہے۔ اس کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ برآمدات میں کمی کا معاملہ بھی تشویش کا باعث ہے۔ حکومت کو بہت سے چیلنجوںکا سامنا ہے‘ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکومت نے بتایا کہ ہمارے جی ڈی پی کی شرح نمو 4.7 ہے تو اسے ثبوت کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ اور افراط زر اور مالیاتی خسارے میں کمی ہوئی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت سرمایہ کاری موجودہ حکومت کی ساکھ پر اعتماد کا اظہار ہے۔ بیروزگاری کا خاتمہ اور محصولات کی وصولی پر توجہ دی جانی چاہیے۔پیپلز پارٹی کے رکن سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ زرعی شعبے کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ بلوچستان کی محرومی دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں‘ آبادی کا حساب لگائے بغیر مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا‘ ملک میں فوری مردم شماری کرائی جائے۔ آبادی کا حساب لگائے بغیر مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا‘ فوری مردم شماری کی ضرورت ہے۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ حکومت نے موجودہ حالات میں بہت اچھا بجٹ پیش کیا ہے‘ ترسیلات زر 11 ارب ڈالر سے 16 ارب ڈالر تک جانا بہت خوش آئند ہے‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز 40 ارب روپے سے بڑھا کر 115 ارب روپے کرنے سے مستحق افراد کو مالی معاونت بڑھائی جاسکے گی۔ ٹیکس وصولی میں 60 فیصد اضافہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے‘ ہائیر ایجوکیشن کمشن کے لئے 21 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی جارہی ہے‘ بجٹ میں زرعی شعبے کی ترقی کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں‘ معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ہمیں میثاق معیشت کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر ہری رام نے کہا ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کیلئے وافر فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے‘ صنعتی شعبے کی بحالی کی طرف توجہ دی جائے‘ امن و امان کے قیام کیلئے پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی کارکردگی قابل تحسین ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ حکومتی اقدامات کی بدولت تین سال میں معیشت بہتر ہوئی ہے‘ زرعی شعبے کی بہتری کیلئے کسان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے‘ کھاد کی قیمت میں کمی گئی ہے‘ کیڑے مار ادویات پر سبسڈی دی گئی ہے‘ معیشت ترقی کرے گی تو عوام کو سہولیات ملیں گی۔ حکومتی اقدامات کی بدولت تین سال میں معیشت بہتر ہوئی ہے۔ جب حکومت برسراقتدار آئی تو توانائی کا بحران تھا اور معیشت کی حالت بہتر نہیں تھی، سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے تاہم موجودہ اقتصادی ٹیم نے صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔ اقتصادی کارکردگی کو عالمی ادارے بھی سراہ رہے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زرعی شعبے کی بہتری کے لئے کسان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ میں کھاد کی قیمت میں کمی گئی ہے۔ کیڑے مار ادویات پر سبسڈی دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے لئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ توانائی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ کئی منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ کاسا منصوبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ترقی کے لئے سڑکوں کا جال بچھایا جانا ضروری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر کلثوم پروین نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں اتنا اچھا بجٹ پیش کرنے پر اقتصادی ٹیم کی تعریف کرنی چاہیے‘ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ سحر ‘ افطار اور تراویح کے اوقات میں بلا تعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے‘ ملک میں زیادہ نقصانات والے علاقوں کے سوا کہیں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر عتیق شیخ کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ پورے ملک میں کہیں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا میں اصلاحات کے لئے قائم کی جانے والی کمیٹی نے مشاورت مکمل کرلی ہے‘ سفارشات کو حتمی شکل دی جارہی ہے‘ رپورٹ جلد وزیراعظم کو پیش کردی جائے گی‘ قبائلی عمائدین اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھنا اور علاقے کے نوجوان تاجر اور دیگر افراد خیبر پختونخوا میں انضمام چاہتے ہیں‘ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرے گی۔ سینٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر میاں عتیق شیخ نے بجلی کے صارفین سے سرچارجز کی وصولی کے معاملے پر تحریک التواء واپس لے لی۔ سینٹ نے سمندر پار پاکستانیوں کو درپیش مسائل سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دیدی۔ سینٹ اجلاس آج تک ملتوی کردیا گیا۔
اسلام آباد(خصوصی نمائندہ+ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ 2016-17 پر عام بحث بدھ کو تیسرے روز بھی جاری رہی، اپوزیشن ارکان نے بجٹ کو غریب دشمن قرار دیتے ہوئے حکومتی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حکومت دعوے کرتی ہے کہ 3سالوں میں اس کا کوئی مالیاتی سکینڈل سامنے نہیں لیکن دو آڈیٹر جنرل 480ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی میں شدید بے ضابطگیوں کی نشاندہی کر چکے،بجٹ میں محصولات بارے تمام اعداد و شمار گمراہ کن ہیں، اسحاق ڈار نے 3.1 فیصد گروتھ ریٹ کو تبدیل کر کے 4.7 کیا۔مسلملیگ ن کے 3سال میں پاکستان کے ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں 5.2 کھرب کا اضافہ وہا، ان کی حکومت سے پہلے ہر پاکستانی 39ہزار کا مقروض تھا اب ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 925روپے کا مقروض ہو گا، پی ایس ڈی پی میں فاٹا سندھ اور جھوٹے صوبوں کو نظر انداز کر دیا گیا ، وفاقی ترقیاتی پروگرام میں پنجاب کیلئے 200 ارب اور سندھ کیلئے صرف 18 ارب مختص کئے گئے یہ رویہ فیڈریشن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ عام بحث میں پی پی پی کے یوسف تالپور ، شازیہ صوبیہ ، شاہدہ رحمانی، ، غلام محمد لالی، فاٹا رکن شاہ جی گل آفریدی، پی ٹی آئی کے ساجد نواز، انجینئر حامد الحق، غلام سرور خان، جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان، عائشہ سید، آزاد رکن عامر ڈوگر و دیگر نے حصہ لیا۔ جبکہ مسلم لیگ کی طاہرہ اورنگزیب، پرویزملک، چوہدری جعفر اقبال نے حکومت کا دفاع کیا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی غلام سرور خان نے کہا کہ ہر سال بجٹ پیش کیا جا رہا ہے، 3 دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں ایک جیسا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے ، موجودہ بجٹ بھی الفا ظ کا گورکھ دھندہ ہے، ہر سال کی طرح اس بار بھی بجٹ میں عوام کو سہانے خواب دکھائے گئے۔ حکومت ٹیکس ریفارمز لے کر آ رہی ہے، جس میں آف شور کمپنیوں پر15 فیصد ٹیکس ادا کر کے اس بلیک منی کو وائٹ منی کرنے کا آسان طریقہ پیش کیا جا رہا ہے۔مجھے ملک کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے، ملک کے 700 ارب دبئی منتقل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 8سال سے سن رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ اگلے سال ختم ہو جائے گی، ملک میں شہری علاقوں میں 6 سے 9 اور دیہی علاقوں میں 9 سے 12گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم کیوں کی جا رہی ہے، آئین پاکستان میں تو شہری اور دیہی علاقوں میں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ گیس سیکٹر میں گزشتہ سال 145 جی ڈی سی کی مد میں عوام سے لئے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن پرویز ملک نے کہا کہ میں نے کئی بجٹ دیکھے اس سے قبل مگر اس سال کا بجٹ سب سے بہتر تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ تحریک انصاف کے ارکان نہ تو بجٹ میں مثبت تجاویز دے سکے اگر وہ اس قابل ہوتے تو کے پی کے کا بجٹ بہتر بنا سکتے۔ سیاسی سٹیج لگانا اور عملی کام کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے، اپوزیشن تنقید کرنے کی بجائے بہتری کیلئے اپنی رائے دیتے تو بہتر تھا۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید جس کو بلو رانی کہتے تھے آج وہ اس کے پیچھے جا کر کھڑے ہو رہے ہیں۔ شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ حکومت کو چوتھا بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ شفقت محمود نے کہا کہ خواجہ آصف بعض اوقات غیر شائستہ زبان اختیار کرتے ہیں، جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ وزیراعظم کا ایک معمولی آپریشن تھا جسے دل کا بائی پاس قرار دے کر ڈرامہ رچایا گیا، کل میڈیا نے دیکھا دیا کہ بائی پاس کرانے والا وزیراعظم سوٹڈ بوٹڈ ہسپتال سے گھر جا رہا تھا، مہنگائی کے تناسب سے 10فیصد تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے، خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں بتائیں کل جی ایچ کیو کیا کرنے گئے تھے، تمام صوبوں کو نظر انداز کر کے تمام منصوبے پنجاب کیلئے رکھے گئے ہیں۔ انجینئر حامد الحق نے کہا کہ صوبہ خیبرپی کیمیں بجلی کا شدید بحران ہے، وفاقی حکومت ناکارہ گرڈ سٹینوں کی مرمت کیلئے فنڈز فراہم نہیں کر رہی، اگر حکومت کا رویہ یہی رہا تو 2018تک مدت پوری کرنا مشکل ہو گا، اگر گیس اور بجلی فراہم نہ کی گئی تو ہم گیس اور بجلی بند کر کے پنجاب کو اندھیرے میں ڈبودیں گے۔ ساجد نواز نے کہا کہ بجٹ کو کرسمس کے درخت کی طرح تصوراتی بنا دیا گیا ہے، پی پی پی کی ڈاکٹر شازیہ صوبیہ نے کہا کہ جو شخص خواتین کی عزت نہیں کر سکتا اسے اس ایوان میں بیٹھنے کا حق نہیں، موجودہ بجٹ پرانا تحفہ ہے، نئے پیکٹ میں ڈال کر پیش کرنے کے برابر ہے۔ ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ عوام کا نہیں سرکاری بابوئوں کا بجٹ ہے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں 16 گھنٹے بجلی بند رکھی ہے حالانکہ وہاں ریکوری 100فیصد کے قریب ہے، غربت، خیرات سے نہیں انصاف سے ختم کی جا سکتی ہے، اس لئے بی آئی ایس پی پروگرام کی خیرات سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، ملک میں کالا دھن کو ختم کر نے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں، بھارت میں کالادھن کے خلاف قانون موجود ہے تو پاکستان میں پانامہ لیکس کے حوالے سے کیوں رکاوٹ ہے، پانامہ لیکس کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے۔ عائشہ سید نے کہا کہ زرعی پیکج دینا اچھی بات ہے لیکن اس سے بڑے زمیندار کو فائدہ ہو گا۔ غلام محمد لالی نے کہا کہ حکومت نے بہت اچھا بجٹ پیش کیا اور کسان کو بہت اہمیت دی، زراعت کے حوالے سے اتنا چھا بجٹ اس سے قبل کبھی پیش نہیں کیا گیا، سود سے ایک بنکنگ سسٹم بنایا جائے تا کہ لوگ سود کے بغیر سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ اپوزیشن ہمیشہ تنقید کرتی رہتی ہے آج ان کی حاضری دیکھیں حکومت کے اراکین بیٹھے ہیں، اجلاس کو ملتوی کیا جائے۔