شاداب احسانی‘ نفاذ اردو تحریک کا فعال کردار

پروفسر ڈاکٹر شاداب احسانی صحیح معنوں میں محسن اردو کہلانے کے مستحق ہیں۔ ایک بے بدل شاعر اور محقق جنہوں نے جامعہ کراچی میں اردو کا بول بالا کردیا۔ پہلے مرحلے کے طورپر انہوں نے جامعہ کی کامرس کلاسوں میں اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے لاگو کروا دیا اور اس کاز کی طویل جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ جامعہ کراچی کے صدر شعبہ اردو رہے اور نفاذ اردو تحریک کے ایک فعال کردار کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک طویل نشست میں ان سے نفاذ اردو بارے تمام مسائل‘ شواہد اور ممکنات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ خطہ تہذیبی اور لسانی طورپر اردو زبان کی غرض و غائیت سے تاریخی طورپر بہرہ مند ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں 1877ءمیں بلوچستان کی سرکاری زبان اردو تھی‘ اسی طرح سندھ کی ریاست خیرپور میں بھی اردو زبان نافذ تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ تاریخی شہادت بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ پاکستان کا یہ خطہ زمین تہذیبی اور لسانی اعتبار سے ایک الگ اکائی کے طورپر زندہ رہا ہے۔ پاکستانیت کی بازیافت میں یہ بہت اہم بات ہے۔ اردو زبان کی افادیت بارے ان کا استدلال تھا کہ کسی بھی زبان کی عمارت مصادر پر کھڑی ہوتی ہے اور اردو کے سارے مصادر سو فی صد مقامی ہیں۔ یہ زبان کہیں اور سے نہیں آئی‘ لسانی اور تہذیبی اعتبار سے اس خطہ زمین سے منسوب و مانوس ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کا م¶قف تھا کہ بولیاں از خود آزادی کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ ہمارے اس عہد میں بھی بولیاں آزاد ہو رہی ہیں۔ مقامی اور علاقائی بولیوں کی آزادی کے باوصف بھی اردو زبان کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے۔ مقامی زبانوں کی آزادی کس طرح اور کیونکر؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاداب احسانی کا کہنا تھا کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں جب سنسکرت کی جگہ پالی زبان کو عوام الناس کی زبان بنایا گیا تو یہ مقامی زبانوں کی آزادی کی شروعات تھیں۔ اس دور میں سنسکرت وہ اجتماعی جذبہ نہیں پیدا کر سکی جو پالی زبان نے کیا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھئے سنسکرت کا طلسم ٹوٹا تو مغلوں نے ہندوستان پر حکومت قائم کرتے ہی فارسی زبان رائج کردی۔ ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ غیر منقسم ہندوستان کے ہندو¶ں نے بھی فارسی زبان سیکھی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی گویا ہوئے کہ زبانوں کی گرفت کمزور ہونے سے ہی ملک ٹوٹتے اور جغرافیائی تغیر پیدا ہوتے ہیں‘ ملاحظہ فرمائیے اورنگزیب عالم گیرکے زمانہ میں فارسی زبان کا زورال شروع ہوا‘ لہٰذا زبان کی گرفت کمزور ہونے سے اقتدار کا کمزور ہونا بالکل ایک فطری امر ہے۔ 1635ءمیں ملاوجہی کی سب رس منظر عام پر آئی اور قدم را¶ پدم را¶ از فخر الدین نظامی کا منظر عام پر آنا اردو زبان کی پیش رفت کا سبب بن گیا۔ پھر آپ دیکھئے 1757ءتک اردو کی شعری روایت قائم ہو چکی تھی اور اسکے شعری رویے بھی سامنے آرہے تھے۔ اس دور میں انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ترجیحات اور منصوبہ بندی بھی ذہن میں رہنی چاہئے‘ جو بیک وقت فارسی اور اردو زبان سیکھ رہے تھے۔ اردو سیکھنے والے کو تنخواہ کے ساتھ 20 پونڈ زائد اور فارسی سیکھنے والے کو 10 پونڈ زائد ملتے تھے۔ پھر 1800ءمیں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو اس ضمن میں انگریزوں کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ مقامی لوگوں تک انکی اپنی زبان کے ذریعے رسائی حاصل کی جائے۔ اپنا کلی اقتدار قائم کرنے کیلئے انگریزوں نے بتدریج کئی ترجیحات وضع کیں۔ 1825ءمیں دہلی کالج کے قیام کے بعد تراجم کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر 1935ءمیں یوٹرن کے ذریعے انگریزی زبان کی تعلیم رائج کر دی گئی۔ انگریز اردو زبان کے ذریعے عوام میں داخل ہوئے اور پھر انگریزی زبان رائج کر کے اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کہہ رہے تھے کہ جو طاقت زبان میں ہے وہ کسی اور محرک میں نہیں‘ قومی یکجہتی اور اتحاد کا جو غیرمتزلزل یونٹ زبان بناتی ہے وہ بہت مثالی ہوتا ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے پاکستانیت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ پاکستان پانچ صوبوں کا گلدستہ ہے۔ ان پانچوں یونٹس کے مابین حب الوطنی اور یگانگت کا جذبہ اردو زبان پیدا کر سکتی ہے۔ یہی پاکستانیت ہے‘ 1867ءہی میں سرسید احمد خان نے کہہ دیا تھا کہ اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان ہے جسے ہندو¶ں کے احتجاج پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانیت تو سرسید کے اس قول سے ہی پیدا ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر پاکستانیوں کے منہ میں تادیر انگریزی یا کوئی اور غیر ملکی زبان رکھی رہی تو اس سے طبقات پیدا ہوتے رہیں گے‘ ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں اور نہ ہی اس کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ غیر ملکی زبان کی حیثیت سے اسے بروئے کار لائیں لیکن اردو کی قیمت پر نہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم بموجب نفاذ اردو کا ہدف کیسے حاصل ہو گا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر شاداب احسانی گویا ہوئے‘ یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات کو عملی جامہ سرکار ہی پہنا سکتی ہے اور نفاذ اردو کا مکمل ہدف حاصل کرنے کیلئے پورے ملک کی جامعات کے شعبہ ہائے اردو بالخصوص وفاقی اردو یونیورسٹی اور جامعہ کراچی کومزید آگے آنا چاہئے اور اس ضمن میں انہیں جو بھی بن پڑے کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں اردو سے متعلق تمام سرکاری و نیم سرکاری ادارے اس حوالے سے اپنے اہداف مقررکریں اور مل کر چلنے کی سعی کریں‘ ان میں ادارہ فروغ اردو‘ اکادمی ادبیات‘ لوک ورثہ اور اس قبیل کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سپریم کورٹ کے حکم کی جہاں جہاں خلاف ورزی ہو رہی ہے اسے ازخود نوٹس لیکر اصلاح احوال کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں‘ یہی نوشتہ دیوار ہے جو ہماری قومی و ملکی بقاءکیلئے بھی ضروری ہے۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...