پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں JOINT INVESTIGATION TEAM (JIT) گزشتہ دو ہفتوں سے جو تحقیقات کر رہی ہے اس میں قطر کے شاہی خاندان کے ایک شہزادے کا نام بار بار آتا ہے۔ شہزادہ کو دوبار JIT کے سامنے پیش ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ قطری شہزادہ دیگر ’’مصروفیات‘‘ کے باعث معذرت خواہی کر رہا ہے۔ اس لئے پاکستان میں اس مقدمہ کے فیصلہ میں قطری شہزادے کی گواہی کے بنیادی رول کے باعث ’’سیاست قطر‘‘ کے نام زبان زد خاص وعام ہوگیا ہے۔ اس پس منظر میں جب گزشتہ روز سعودی عرب سمیت چھ عدد دیگر عرب ریاستوں جن کے ناموں سے آپ سب واقف ہیں۔ انہوں نے قطر کی ریاست سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ دینے کی بریکنگ نیوز دی تو پوری دنیا میں ایک بھونچال آگیا کیونکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قطر کے ساتھ ان ممالک کے تجارتی فضائی بحری اور زمینی رابطے بھی منقطع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ قطر کے تینوں طرف سمندر ہے اور باقی دنیا سے زمینی رابطہ سعودی عرب کی سرزمین سے ہوکر گزرتا ہے‘ یہ راستہ بھی بند ہو جانے سے قطر ایک نہ صرف LAND LOCKED ملک بن جاتا ہے بلکہ سمندری راستے بشمول نہت سوز بندش ہو جانے کے باعث قطر کی امپورٹ اور ایکسپورٹ پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ قطر اپنے اردگرد کے تمام ہمسایہ ممالک سے ISOLATE کر دیئے جانے کے باعث عرب دنیا میں ایک ناقابل بیان ایسا خطرناک اور خوفناک ماحول کا نقشہ پیش کرسکتا ہے جس کے اثرات سے نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری اسلامی دنیا اور اُمّہ سٹرٹیجک سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اسلامی دنیا کے وجود کو شدید چیلنجز سے دوچار کر سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا خطرات کو بھانپتے ہوئے امیر کویت سعودی عرب پہنچ گئے ہیں تاکہ اس بحران پر قابو پانے کیلئے کوئی راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے۔ قطر کے حکمران موجودہ بحران کے بارے میں قطری عوام سے خطاب کرنے والے تھے لیکن شیخ صباء امیر کویت کی درخواست پر انہوں نے اپنا یہ خطاب گفت وشنید کرنے کیلئے ملتوی کر دیا ہے۔ امیر کویت نے قطرکے حکمران تمیم بن حمد آل الثانی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرکے بحران کے پارا کو کم کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ خلیجی ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کی صورتحال زیادہ دیر قائم رہنا نہ صرف خلیجی ممالک اور مشرق وسطی میں مزید کرٹیکل صورت اختیار کرکے نہ صرف عرب ممالک اور غیر عرب ممالک کے درمیان موجودہ خلیج کو مزید گہرا اور وسیع بنا سکتے ہیں بلکہ OIC کے وجود کو بھی خطرہ میں ڈال کر پورے عالم اسلام کو ناقابل بیان خطرات میں گھیرے جانے کے جواز پیدا کرسکتے ہیں۔
قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا ہے کہ تمام ممالک کو مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات دور کرنے چاہئیں۔ موجودہ بحران کی وجوہات کے بارے میں قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ قطر کے خلاف پیدا ہونے والے اچانک تنازعہ پر وہ حیران ہیں۔ ان کے اس بارے میں حقیقی وجوہات کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے اور صرف اپنے افسوس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر اس بحران کے پیچھے دراصل کوئی وجوہات تھیں تو ان پر گزشتہ ہفتے GCC کے اجلاس میں بات کی جاسکتی تھی۔ قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ حال ہی میں ریاض میں ہونے والی امریکی اسلامی عرب کانفرنس میں بھی قطر کی طرف سے کسی شکایت کے حوالے سے ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قطر کے پاس مندرجہ بالا کانفرنسوں میں موجودہ بحران کے پیدا ہونے کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا۔ مختلف تبصرہ نگار قطری وزیر خارجہ کے بیان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ موجودہ بحران کی اصل وجوہات کچھ اور ہیں جو ابھی کئی مصلحتوں کے باعث صیغہ راز میں ہیں جن کے بارے میں وقت گزرنے کے ساتھ پردہ اٹھے گا۔ ابھی صرف مشرق وسطیٰ کے بعض عجمی یعنی غیر عرب دارالخلافوں میں یہ سرگوشیاں ضرور ہو رہی ہیں کہ حال ہی میں ریاض میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں دہشت گردی کا عالمی سطح پر توڑ تلاش کرنے کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا رول ادا کرنے کے لئے آئے تھے۔ کیا اس کانفرنس کے ایجنڈے میں اسلامی دنیا کی قیادتوں میں دہشت گردی کے قلع قمع کے علاوہ اسلامی دنیا میں بالعموم اور عرب ریاستوں میں بالخصوص دیرینہ رنجشوں کو ہوا دیکر ان میں منافرت کے بیج بونا بھی شامل تھا۔ صدر ٹرمپ نے ریاض کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں جن BLUNT الفاظ میں اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ان کی حوصلہ افزائی اور INSPIRATION سے بعض عرب ریاستوں کو قطر کے خلاف حالیہ اقدامات اٹھانے کی غالباً راہ ہموار کی ہے۔ موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ٹویٹر پیغام میں امریکی صدر کا کہنا ہے جو انہی کے الفاظ میں قارئین کے سامنے پیش خدمت ہے۔
"SO GOOD TO SEE THE SAUDI ARABIA VISIT WITH THE KING AND 50 COUNTRIES ALREADY PAYING OFF. THEY SAID THEY WOULD TAKE A HARD LINE ON FUNDING TERRORISM, AND ALL REFERENCE WAS POINTING TO QATAR. PERHAPS THIS WILL BE THE BEGINING OF THE END TO THE HORROR OF TERRORISM"
امریکی صدر نے اسلامی دنیا کے بارے میں دہشت گردی کے حوالے سے مغربی دنیا کی نمائندگی کر دی ہے۔ وزیراعظم پاکستان سے میری گزارش ہے کہ وہ عرب ریاستوں اور غیر عرب ممالک جنہیں کسی وقت عجم کا نام دیا جاتا تھا ان سب کی موجودہ نازل یعنی کرٹیکل صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ سعودی عرب کے سربراہ شاہ سلمان اور قطر کے امیر تمیم بن حمد آل الثانی دونوں کا شمار آپ کے ذاتی دوستوں میں ہے جن کے ساتھ شریف خاندان کے ذاتی اور خاندانی تعلقات ہیں۔ میں حیران ہوں کہ دنیائے اسلام کی اس نازک گھڑی پر امریکہ کا صدر امریکہ کا وزیر خارجہ‘ روس کا صدر اور ترکی کا صدر اپنی مصالحتی خدمات پیش کر رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اس امتحان کے وقت دنیا کی واحد اسلامی نیو کلیئر پاور کا کردار کا فیصلہ دفتر خارجہ کے ترجمان پر چھوڑ دیا ہے۔ جس نے ارشاد فرمایا ہے کہ قطر کے بحران کے بارے میں اگر حکومت پاکستان کو کچھ کہنا ہو گا تو مناسب وقت پر اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ میاں صاحب آپ کی زندگی میں امتحان کے دو ہی مواقع آئے تھے ایک ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ اور دوسرا موجودہ مشرق وسطیٰ کے بحران میں پاکستان کے کردار کا فیصلہ۔ میری التماس ہے کہ میاں صاحب اپنا جہاز پکڑیئے اور مشیر خارجہ کو ساتھ لیکر شاہ سلیمان اور امیر قطر سے فوری ملاقاتوں کا اہتمام کیجئے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد میں OIC کی ہنگامی سربراہی اجلاس کا بندوبست کیجئے۔ ایسے اجلاسوں میں جن کا تعلق اسلامی دنیا کے وقار مستقبل سے ہے کسی غیر اسلامی قوت کو مشورہ کی شرکت دینا اپنا تباہی کی دعوت دینا ہے۔