تلخ حقیقتیں

بجلی کے بحران نے زندگی ہر جگہ اجیران کر رکھی ہے۔سیاست دان جھوٹے سچے بیانات سے طفل تسلی میں مبتلا ہیں مگر ہمارے ہاں سرکاری اعلیٰ عہدہ رکھنے والے ملازمین اور انجینئرز کی اہلیت اور صورت حال کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت بالکل غائب ہو چکی ہے ۔وہ سیاستدانوں کو حقیقت سے آگاہ نہیںکررہے۔اچھے انجینئرتوغالباً وفات پا چکے ہیں۔
وزیر اعظم بار بار اعلان کر رہے ہیںکہ بجلی کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے پچھلے تین سالوں میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور نہایت لائق اور نااہل وزیر لمبی تان کر سوئے رہے صرف زبان درازی سے وقت گزاراجتنی مرضی بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرلیں ۔کوئی بہتری نہیں آئیگی۔کیونکہ بجلی کی ترسیل Transmission Lineمیں مزید بجلی کی گنجائش ہی نہیں اور ہمارے انجیئنرز کو اس کے حل کیلئے کوئی خواب نہیں آیا۔ وقتی طور پر انتظامی اقدامات سے بحران کی شدت میں کچھ نمایاں کمی فوری طور پر ممکن ہے۔جس کی بابت خطوط کے ذریعے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیامگر کچھ حاصل نہیں ہوا یا تو انہوں نے توجہ نہیں دی یا چٹھیاں بڑے صاحب تک پہنچنے سے پہلے ہی ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئیں۔
مرہم پٹی والے اقدامات میں بجلی کے استعمال کی ترجیحات بدلنا ہونگی۔پہلا قدم کے طور پر تمام شادی گھروں کو سورج غروب کے بعد بجلی کا استعمال معطل کرنا ہوگا۔وہ اپنے Gernaters سے کام چلائیں۔ اسی طرح تمام کاروباری ادارے، ریستوران اشتہاربازی کیلئے مغرب کے بعد بجلی کی سپلائی اور استعمال بند کرنا ہوگا۔بجلی چوری کی کڑی سزا کا قانون بذریعہ Ordinance نافذ کرنا ہو گاجس کے تحت بجلی چور کو چھ ماہ قید اور اس دوران کنکشن معطل کرنا ہوگا۔اس میں کسی چھوٹے بڑے کی تمیز کو ختم کرنا ہوگا۔جو کوئی بجلی چوری کو کامیابی سے پکڑوائے اسے کچھ انعام ایک دفعہ بل میں رعایت کے طور پر دینا چاہیے اور بجلی چور کا نام اخباروں میں شائع کرنا چاہئے۔
بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے سب سے پہلے تمام سرکاری اداروں جن میں وزیراعظم،صدر،نیشنل اسمبلی،ایم این اے ،پاکستان سیکرٹریٹ کے بل بھی باقاعدگی سے اور فوراً ادا ہونے چاہیں۔ جہاں کہیں بھی دو مہینے کا بل واجب الادا ہو تو تیسرے مہینے اس کا کنکشن کاٹ دینا چاہیے۔لوڈ شیڈنگ وزیراعظم ،صدر اور گورنر ہاؤس میں بھی لاگو ہونی چاہیے جہاں وہ جنریٹرز سے کام لیں۔یوں بچت والی بجلی مختلف علاقوں میں تمام رات مہیا کرنی چاہیے

ای پیپر دی نیشن