سنگین حالات اور ہمارے حکمرانوں کی ’’کچن ڈیبیٹ‘‘

ہمارے حکمران آج کل ’’کچن ڈیبیٹ‘‘ میں مشغول ہیں۔ کچن ڈیبیٹ کا لفظ ایجاد ہونا بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ یہ 1959ء کی بات ہے۔ ماسکو میں گھریلو سامان کی ایک نمائش میں اس وقت کے امریکہ کے نائب صدر نکسن بھی شریک تھے۔ صدر نکسن بعد میں امریکہ کے صدر بنے تھے۔ اس وقت امریکہ کے نائب صدر اور روس کے وزیراعظم کے درمیان ایک مکالمہ ہوا تھا اور یہ مکالمہ کچن کے ساز و سامان کی نمائش والی جگہ پر ہوا تھا اس لئے اسے ’’کچن ڈیبیٹ‘‘کا نام دیا گیا تھا۔ کچن کے سازوسامان میں امریکہ اور روس دونوں کی مشینیں موجود تھیں۔ روس کے وزیراعظم خردشچیف ایک حاضر دماغ اور خوش گفتار شخصیت تھے۔ انہوں نے کچن کا سامان دیکھتے دیکھتے نکسن سے کہا ’’تمہارے بچے کمیونسٹ ہونگے اور سات سال بعد روس امریکہ پر اقتصادی برتری حاصل کر لے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس بات کا انجام یہ ہوا کہ 1999ء کے شروع میں ہی خردشچیف کے بیٹے اور پوتے دونوں نے امریکی شہرت حاصل کرنے کی درخواست دے دی۔ آج پچاس ساٹھ برس سے زائد کے عرصے کے بعد دنیا کے منظرنامے پر حالات مختلف ہیں۔ روس کو نہیں بلکہ چین کو اقتصادی برتری حاصل ہو رہی ہے۔ جبکہ ا مریکہ رو س کی بجائے سعودی سے ’’کچن ڈیبیٹ‘‘ کر کے اربوں کا اسلحہ بیچ کر گیا۔ اسی کانفرنس میں اسلحہ بیچنے کی یہ کوشش قطر کے ساتھ بھی کی گئی ہے لیکن اس صورتحال میں ہمارے حکمرانوں کی اولادوں نے چین کی شہریت کے لئے درخواست نہیں دینی ہے پھر امریکہ اور سعودیہ کی شہریت کے لئے ہی جانا ہے۔ لیکن چین کے اقتصادی کردار کے باعث امریکہ کی مسلسل سوچ بچار کا سلسلہ اپنی جگہ موجود ہے اور ان حالات میں قطر نے خارجہ پالیسی کئی برس سے بہت بہتر کی ہے۔ ’’قطر ائیرویز‘‘ نے ترقی کی ہے۔ قطر کے جواں سال امیر ادبی اور ادیب کے کردار کو بھی سمجھتے ہیں۔ سعودیہ میں ٹرمپ کی اسلحہ کی فروخت میں دلچسپی کو بھی قطر والوں نے ٹھنڈے دل سے دیکھا کیونکہ امریکہ اپنی اقتصادی بہتری کے لئے اسلحہ بیچنے کا راستہ اپنا رہا ہے۔ ان کے پاس اس سے بڑا ’’شارٹ کٹ‘‘ موجود نہیں ہے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پچھلے دنوں مانچسٹر میں داعش کا خود کش حملہ سامنے آیا۔ کل ایرانی پارلیمنٹ میں داعش کی فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ مزار خمینی پر خود کش حملہ ہوا۔ ایران کی پارلیمنٹ کے واقعات ہوئے۔ مزار خمینی پر خود کش حملہ ہوا۔ ایران کی پارلیمنٹ پر بھی حملہ ہوا لیکن اس واردات کے دوران ایران کی پارلیمنٹ کا اجلاس بھی جاری رہا اور اب جو دہشت گرد پکڑا گیا ہے اسے پھانسی کی سزا بھی دی جا رہی ہے اور یہ فیصلے تبھی ممکن ہوا کرتے ہیں جب کسی ملک میں سہولت کار موجود نہ ہوں۔ عالمی منظرنامے پر بتائی گئی اس صورتحال میں جب کہ دنیاکے سامنتے نئی جنگ کے آغاز کی بات ہو رہی ہے ہمارے ملک پاکستان کا حکمران خاندان اس ’’کچن ڈیبیٹ‘‘ میں مصروف ہے جو اس کے اپنے کچن کی ہے اور دنیا بھر کے عالمی واقعات کی سنگین صورتحال اقتدار بچانے کی جنگ میں مصروف ہیں اور خارجہ پالیسی اور پھر ماہرین کا سر جوڑ کر نئے حالات کا تجزبہ اور پالیسی مرتب کرنے کا مرحلہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے حکمران اتنے ناعاقبت اندیش ہیں کہ محض اقتدار حاصل کرنے اور پھر اگلے الیکشن کی تیاری اور دیگر اہلخانہ کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچانے اور پھر اقتدار بچانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں جبکہ نئی صورتحال میں افغانستان بھی ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے۔
سعودیہ عرب اور ایران کی موجودہ صورت حال سے کچھ عرصہ قبل یہ بات ہو رہی تھی کہ سعودی عرب اور ایران کے اختلافات کم کرائیں اور اس وقت تک یہ سوچ بھی بڑی پختہ تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اس لئے مسلم امہ میں اہمیت رکھتا ہے یہ اہمیت آج بھی موجود ہے مگر سعودی عرب کی تازہ ترین پالیسی کی وجہ سے معاملات ذرا سے مختلف ہو چکے ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان مخلص قیادت کے بحران کا بھی شکار رہا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر جو کردار پاکستان ادا کر سکتا تھا وہ نہیں کر سکا ہے اور اس بات میں ہی سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش شامل تھی۔ پاکستان کے برعکس ہندوستان کو دیکھیں تو یہ 23 اکتوبر 2012ء کی بات ہے جب وال سٹریٹ جرنل نے سعودی عرب کے بادشاہ اور بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی ملاقات پر لکھا تھا کہ ’’سعودی عریبیہ ہندوستان کے قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ چونکہ اس نے ایک ہندوستانی militant فصیح محمود اور لشکر طیبہ کے رکن ابوجندال کو بھی ممبئی حملوں کے سلسلے میں ہندوستان کے حوالے کر دیا ہے‘‘ اس پر انڈین جنرل آشوک نے کہا تھا کہ یہ سب امریکی دباؤ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ دراصل ہندوستان کافی عرصہ سے پاکستان کو سعودیہ سے دور کرنے کی کوششوں میں شامل تھا۔ ہندوستان کی دوسری پالیسی یہ بھی رہی ہے کہ وہ سعودیہ کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنا کر چل رہا ہے۔ حالانکہ اس دوران وہ اسرائیلیوں سے فوجی ہتھیار بھی خرید رہا ہے۔ ہندوستان کی ان پالیسیوں کے درمیان ہماری موجودہ حکومت یا پچھلی حکومتیں کیا کر رہی تھیں ؟ وہ ملک کے اہم قومی مفادات سے نظریں چرا کر سستے طریقوں سے عوام کو خوش کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ جبکہ قومی سلامتی کے امور محض فوج کے ذمے لگا دئیے ہیں اور حکومت داخلہ اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں سنجیدہ نہیں دکھائی دیتی رہی اور پھر ہمارے یہ حکمران آج بھی کسی اقتصادی ترقی کی وجہ سے ’’کچن ڈیبیٹ‘‘ میں مشغول نہیں ہیں بلکہ اپنے خاندانی امور کے ساتھ کچن ڈیبیٹ میں مصروف ہیں اور خدانخواستہ مشکل وقت آنے کی صورت میں ان کے لاڈلے اور بھولے بھالے بچے کسی بھی ملک کی شہریت کے ساتھ ملک چھوڑ کر روانہ ہو جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ باقی رہا وہاں پہنچ کر ’’دال روٹی‘‘ تو وہ کسی نہ کسی طرح تو چلتی رہے گی!! اپنا خیال رکھیئے گا۔

ای پیپر دی نیشن