ٹرمپ کی ”باجو کی گلی“

آپ میں سے شاید بہت کم لوگوں کو یہ خبر ہو کہ آج کے دور میں جبکہ ”گارڈین“ اور ”انڈی پینڈنٹ“ جیسے بہترین اخبارات بھی مکمل طورپر صرف انٹرنیٹ ایڈیشنز تک محدود ہوچکے ہیں،امریکہ کا ”وال سٹریٹ جرنل“ بدستور اپنا پرنٹ ایڈیشن شائع کئے چلاجارہا ہے۔1980 کی دہائی کے اختتام تک اس کی روزانہ ایک کروڑ سے زیادہ کاپیاں پریس سے نکل کر قارئین تک پہنچتی تھیں۔ اس حوالے سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ شائع اور فروخت ہونے والے انگریزی اخبارات میں سرِ فہرست سمجھا جاتا تھا۔
”وال سٹریٹ جرنل“ دنیا بھر میں ہوئے کسی بھی واقعہ کو صرف ایک سیٹھ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس میں چھپے مضامین پڑھ کر لاکھوں افراد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کونسی کمپنی کے شیئرز خریدیں۔ کس کاروبار میں سرمایہ کاری کریں اور دنیا کے کس شہر میں ان دنوں سستے داموں بکتی ہوئی جائیدادوں کو خرید کر مستقبل میں بے تحاشہ منافع کمانے کی امید باندھیں۔
سیٹھوں کے اس چہیتے اخبار میں جو کئی حوالوں سے ان کا ذہن ساز بھی ہے،31مئی 2017کو ایک طویل مضمون چھپا ہے۔ Ericاس مضمون کا مصنف ہے۔ یہ شخص کسی زمانے میںامریکہ میں خصوصی مہم جوئی کے لئے تیار کئے Sealsکا ایک دلیر افسر ہوا کرتا تھا۔ وہاں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد اس نے ایک ”سکیورٹی فرم“ قائم کرلی۔ Black Watersاس کا نام ہے۔ پاکستان میں اس فرم کا نام 2008سے 2010کے درمیان بہت مشہور ہوا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ سی آئی اے وغیرہ اپنے ”گندے کام“ اس کمپنی کو ٹھیکے پر دیتے ہیں۔افغانستان اور پاکستان میں اس کمپنی کے کارندوں نے کئی روپ دھار کر امریکی فوج کے لئے اہم اور حساس معلومات حاصل کیں۔ اس کے ایجنٹوں نے کئی ”دہشت گردوں“ کو اغواءکرکے امریکہ کے حوالے کیا۔ کئی ایک کو پُراسرار انداز میں قتل بھی کردیا گیا۔
اخبارات میں اس کمپنی سے جڑی کہانیوں کی مسلسل تشہیر کے بعد Black Watersبہت بدنام ہوئی۔ دھندا اس کا مگر منافع بخش انداز میں چلتا رہا۔چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے ایک زمانے میں سی پیک کے منصوبوں کی سکیورٹی بھی اس کمپنی کے حوالے کرنے کی جانب بہت سنجیدگی سے غور کررہا تھا۔ ہمیں ہرگز یہ خبر نہیں کہ بالآخر اس ضمن میں حتمی فیصلہ کیا ہوا۔ بہت ہی عیاں حقیقت ہے تو صرف یہ کہ بہت بدنام ہوجانے کے باوجود بھی یہ کمپنی اپنا کاروبار بہت کامیابی سے چلارہی ہے۔صدر ٹرمپ کے بھی اس کمپنی سے مراسم بہت قریبی ہیں۔وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد ٹرمپ نے Ericکی بہن کو اپنا وزیر تعلیم بناکر اپنے جنونی مداحین تک کو حیران کردیا تھا۔
بہرحال، 31مئی 2017کے دن وال سٹریٹ جرنل میں Ericکا جو مضمون شائع ہوا ہے موضوع اس کا افغانستان ہے۔ نائن الیون کے بعد اس ملک پرحملہ آور ہونے کے بعد امریکہ نے وہاں دائمی امن اور ایک مستحکم اور ”منتخب“ حکومت کے قیام کے لئے اربوں ڈالر ضائع کئے ہیں۔ دوہزار کے قریب امریکی فوجی اس مشن کو پایہ تکمیل پہنچانے کے نام پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔ ہزاروں کئی معرکوں میں ملے زخموں کی بدولت عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ سینکڑوں امریکی فوجی افغانستان میں تعیناتی کی وجہ سے ناقابل علاج ذہنی مریض بھی بن چکے ہیں۔
افغانستان پر جنگ صدر بش نے مسلط کی تھی۔ اپنے 8سالوں کے دوران مگر وہ اس ملک کے لئے طے کئے اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہ کرپایا۔ صدر اوبامہ منتخب ہونے کے بعد عراق کی طرح اس ملک سے بھی جان چھڑانا چاہتا تھا۔ اس کے جرنیلوں نے مگر اس کے ہاتھ باندھ دئیے۔ اسے مجبور کیا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کے بجائے وہاں Surgeکے نام پر مزید فوجی بھیجے۔
اوبامہ اپنے جرنیلوں کی بات کافی لیت ولعل کے بعد بالآخر ماننے پر مجبور ہوگیا۔ افغانستان میں مزید ہزاروں فوجی بھیجتے ہوئے البتہ اس نے یہ شرط بھی عائد کی کہ اگر 2014کے اختتام تک امریکی جرنیل افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہ کرپائے تو اس ملک میں امریکی فوجیوں کی صرف ایک قلیل تعداد ٹریننگ وغیرہ کے نام پر موجود رہے گی۔وہاں مقیم فوجی ازخود طالبان کے خلاف کسی جنگی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ افغان فوجیوں کو صرف ”گائیڈ“ کریں گے یا بہت ہی مشکل صورتوں میں انہیں Air Cover فراہم کیا جائے گا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے افغانستان کا کبھی ذکر ہی نہیں کیا۔ وائٹ ہاﺅس پہنچنے کے بعد اس نے اپنی حکومت کے لئے جو اہداف مقرر کئے ان میں بھی افغانستان کا ذکر نہ ہوا۔ ٹرمپ کے اس رویے نے کئی تبصرہ نگاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ نومنتخب امریکی صدر ”باجوکی گلی“ سے افغانستان سے باہر آنا چاہتا ہے۔
اپنا وزیر دفاع مگر اس نے جنرل Mattisکوچنا۔ اس جرنیل نے افغانستان کے کئی فوجی معرکوں میں براہ راست اہم کردار ادا کیا تھا۔سنا گیا ہے کہ ایک جھڑ پ میں وہ بہت زخمی بھی ہوا تھا۔ وزارتِ دفاع Mattisکو سونپ دینے کے بعد ٹرمپ نے ایک اور جرنیل Mc Masterکو اپنا قومی سلامتی کا مشیر بنایا۔ یہ جنرل بھی افغانستان میں کئی برسوں تک مقیم رہا ہے۔
افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے پھیلی کرپشن کے توڑ کے لئے وہاں دیانت دار مانے افسروں پر مشتمل ایک ”انسدادِ رشوت ستانی“ یونٹ بنایا گیا تھا۔جنرل میک ماسٹر اس کا کئی مہینوں تک انچارج رہا۔ اپنی اس حیثیت میں اسے افغان اشرافیہ اور حکومت میں جبلی طورپر موجود ہوسِ زر کی خوب خبر ہے۔
جنرل Mattisاور Mc Masterکو دفاع اور قومی سلامتی کے امور سونپنے کے بعد صدر ٹرمپ نے انہیں مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کریں۔ Mattisنے اس ضمن میں حتمی فیصلہ سازی Mc Masterکے حوالے کردی اور یہ جنرل افغانستان میں کم از کم 5ہزار مزید فوجی بھیجنے کو بے چین ہے۔اس کا خیال ہے کہ ”خصوصی مشنز“ کے لئے تیار کئے یہ فوجی ازخود کارروائیاں کرتے ہوئے افغانستان میں ”امن کے دشمن“ گروہوں کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ ٹرمپ یہ فوج بھیجنے کے لئے ابھی تک تیار نہیں ہورہا۔ امریکی سیاست کو سمجھنے والے مبصرین کی اکثریت کا مگر یہ خیال ہے کہ ٹرمپ بھی اوبامہ کی طرح افغانستان کے معاملے میں اپنے جرنیلوں کی بات بالآخر ماننے پر مجبور ہوجائے گا۔
Ericکا 31مئی کے دن لکھا مضمون اس تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں اصرار کیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اس وقت تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک کسی جرنیل کو وہاں ”وائسرائے“ بناکر نہ بھیجا جائے۔ اس ”وائسرائے“ کے پاس ویسے ہی آمرانہ اختیارات ہونا چاہیے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کو ایک ”پرامن اور خوش حال جمہوری ملک“ میں تبدیل کرنے کے لئے شہرئہ آفاق امریکی جنرل میک آرتھر کو دئیے گئے تھے۔
ہمارے لئے بہت ہی اہم بات البتہ Ericکی یہ تجویز بھی ہے کہ افغانستان کو ایک ”پرامن اور خوش حال“ ملک بنانے کے لئے امریکہ وہی ہتھکنڈے استعمال کرے جو اڑھائی سوبرس تک برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر اپنا قبضہ مستحکم بنانے کے لئے اپنائے تھے۔
انگریز افسروں کی ایک بہت ہی قلیل تعداد مقامی طورپر بھرتی کئے افراد کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھ کر مدراس،بنگال اور یوپی کو زیرنگین کرنے کے بعد دہلی تک پہنچی تھی۔ افغانستان میں بھی یہی طریقہ اپنانا ہوگا۔ مجھے شبہ ہے کہ Ericنے اپنا مضمون Mc Masterاور ٹرمپ کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد لکھا ہے۔شاید اس ہفتے کے اختتام تک ان دونوں کی افغانستان کے بارے میں بنائی حکمت عملی کو وائٹ ہاﺅس سرکاری طورپر اپنالے گا۔ اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس کی خبر مجھے ہرگز نہیں۔ بات مگر گھمبیر دِکھ رہی ہے کیونکہ منگل کی سہ پہر ہمارے کور کمانڈرز کا ایک خصوصی اجلاس ہوا اور بدھ کی صبح وزیر اعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کے ایک طویل اجلاس کی صدارت بھی کی۔ افغانستان کے حوالے سے یقینا ” کچھ ہونے“ جارہا ہے۔ JITکے قصوں سے فرصت ملے تو شاید ہم اس پر کچھ توجہ دے سکیں۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...