مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں تاریخ کا ایک عجیب معرکہ جاری ہے ،
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے ،نمرودہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
کے مصداق ایک طرف بھارتی استعمار اپنے پورے وسائل کے ساتھ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے کے درپے ہے اور دوسری طرف کشمیری ہیں جو استعماری ہتھکنڈے کے سامنے سینہ سپر ہیں اور آزادی سے کم کسی حل کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ تیس سال کے دوران میں کشمیریوں نے اپنے آپ کو ہر محاذ پر نا قابل تسخیر ثابت کیا، انہوں نے صدیوں بعد جب بندوق اٹھائی تو بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچایا اور یہ ثابت کیا کہ صوفی منش کشمیری اپنی آزادی اور غیر ت کی خاطر کسی بھی طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ نوخیز مجاہدین نے شجاعت اور بہادری کی ایسی داستانیں چھوڑیں کہ تمغے تقسیم ہوتے تو دو چار نہیں ہزاروں نشان حیدر اور ہلال جرأت کے حقدار ٹھہرتے ۔ جنرل مشرف نے یو ٹرن لے کر پشتیبانی سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ انہیں دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو ایک طرف تو ایسا سیاسی انتفاضہ برپا کیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ کھلی قتل و غارت گری ، حراستی قتل ، مال و اسباب کی تباہی ، پیلٹ گنزجیسے ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے ہزاروں نوجوان بینائی سے محروم کر دئیے گئے لیکن عوامی مزاحمت کی لہریں وسعت پذیر ہوتی ہوئی وادی اور جموں و لداخ کے کونے کونے میں پہنچ گئیں اور دوسری طرف حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی جیسے نوجوانوں سے محض اپنے وسائل کی بنیاد پر عسکری محاذ پر بھارتی قابض افواج کو یہ پیغام پہنچایا کہ آزادی کی منزل کے حصول تک کشمیری ہر محاذ پر جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک کی جو انقلابی لہر اٹھی برہان کے جانشیں سبزار احمد بٹ کی شہادت نے اسے نئی مہمیز دی ۔ لاکھوں لوگوں نے کرفیو توڑتے ہوئے شہیدوں کے جنازے میں شرکت کر کے انہیں بہترین خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ بھارتی استعمار کو واضح اور دوٹوک پیغام دیاکہ ہم منزل کھوٹی نہیں کر سکتے اور ہم لے کے رہیں گے آزادی ، اس لہر کا سب سے اہم پہلو پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت کا اظہار ہے کہ پوری ریاست حتیٰ کہ سرکاری تعلیمی ادارے اور دفاتر تک میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں ، شہداء کے جنازے انہی سبز ہلالی پرچموں میں لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس لہر نے بھارتی اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ یشونت سنہا اور کلدیب نیئر جیسے جہاندیدہ سیاستدان اور صحافی مودی حکومت کو نوشتہ دیوار پڑھنے پر متوجہ کر رہے ہیں اور اس حقیقت کا بر ملا اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر ی نوجوان موت سے بے خوف ہو چکا ہے اسے طاقت کے زور پر نہ دبایا جا سکتا ہے اورنہ ہی معاشی پیکیج سے اسے مطمئن کیاجا سکتا ہے ۔
بین الاقوامی شہرت کی حامل معروف دانشور ارون دھتی رائے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کشمیر میں سات لاکھ فوج کے بجائے ستر لاکھ بھی لگائے پھر بھی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو نہیں کچل سکتا اسی جذبہ کے نتیجے میں آج سکولوں کے طلبہ اور طالبات ہاتھوں میں پتھر لیے بھارتی فوج کو للکار رہے ہیں اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر رہے ہیں ۔مشکلات کے باوجود قائدین حریت جناب سید علی شاہ گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق ، یاسین ملک اور شبیر احمد شاہ جو یا نظربند ہیں یا جیلوں میں آزادی کے ایجنڈے پر متحد اور منتظم ہیں ،انکی اس یکجہتی نے قوم کو ایک نیا حوصلہ دیا۔اس لہر نے بھارت کے اندر اثرات مرتب کیے جہاں کی یونیورسٹیاں اور اہل دانش کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے ترجمان بن چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ادارے متحرک ہوئے اقوام متحدہ ، او آئی سی ، بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل ،یورپی یونین ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے اور میڈیا نے بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیا ہے عالمی سطح پر مرتب ہونے والے دبائو دسے نکلنے یا اسے تحلیل کرنے کیلئے مودی حکومت نے سیز فائرلائن اور ورکنگ بائونڈری پر شیلنگ شروع کر دی ہے تا کہ کشمیریوں کی اپنی داخلی تحریک کا ابھرتا ہوا تصور زائل کرتے ہوئے اسے محض ایک کراس بارڈر دو طرفہ تنازعہ کے روپ میں پیش کیا جائے ۔ ان حالات میں حکومت پاکستان اور اہل پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کی پشتیبانی کا حق ادا کریں ، پاکستان اس مسئلہ میں ایک فریق بھی ہے اور وکیل بھی ۔بد قسمتی سے موجود حالات میں وہ بھرپور کردار مفقود نظر آتا ہے جو حالات کا تقاضا ہے ، بنیادی طور پر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھرپور بین الاقوامی سفارتی مم کا اہتمام کرے بلا شبہ گزشتہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے جامع خطاب کیا اس سے کشمیریوں کے حوصلے بہت بلند ہوئے لیکن اسکے بعد جو قیامت گزری اور کشمیریوں نے قربانیاں دے کر بین الاقوامی سطح پر جو فضا قائم کی اس سے استفادہ کرنے کیلئے ایک بھر پور جامع حکمت عملی تشکیل نہیں پا سکی ، موجودہ حالات میں سرتاج عزیز صاحب کا محض ایک خط لکھ دینا ناکافی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی محترم گیلانی صاحب اور دیگر حریت قائدین سے مقبوضہ کشمیر بات ہوئی ہے وہ پاکستان حکومت سے سخت مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ بلا شبہ یہاں انتخابات کی آمد آمد ہے ۔ پانامہ لیکس جیسے مسائل بھی ہیں لیکن تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے بین الاقوامی سازشو ں کے تناظر میں بہت سطحی شور و غوغا برپا ہے جس پر ہمارے سیاسی حلقے اور میڈیا اپنی توانائیاں ضائع کر رہا ہے ۔ اس موقع پر اہل کشمیر کی بجا توقعات ہیں کہ حکومت بھی ہنگامی بنیادوں پر سفارتی محاذ متحرک کرے اور اپوزیشن اور میڈیا بھی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی سطح پر کشمیریوں کی پشتیبانی کا حق ادا کریں یاد رکھیں کہ پاکستانی پرچموں کی بہار کے ساتھ اٹھنے والی تحریک کی اس لہر کو مایوسی کا شکار کیاگیا تو رد عمل میںپھر کوئی دوسری لہر بھی اٹھ سکتی ہے اسکے ذمہ دار یقینا کشمیر ی نہیں ہوں گے۔
کشمیر کی پکار… کون ہے ہمارا مددگار؟
Jun 09, 2017