خاتون جج کو ہلکے پھلکے کیس دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہیے : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور (اپنے نامہ نگار سے + نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ خواتین ججز کو پہلے گاڑیاں دینے مقصد تھا کہ خواتین ججز نےگھر اور کورٹس کو یکساں وقت دینا ہوتا ہے اور انہیں زیادہ سخت حالات میں کام کرنا ہوتا ہے، ہمارے پاس صرف دس فیصد خواتین ججز ہیں جو بہت کم ہے، صوبے کی پانچ کروڑ آبادی خواتین پر مشتمل ہے، لیکن اس تناسب سے عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے، خواتین کو چاہیئے کہ عدلیہ میں آئیں اور خواتین کو مزید مضبوط کریں۔ گاڑیاں اور دیگر آسانیاں پیدا کرنا ادارے کی ذمہ داری اور فرض ہے۔ میرے نزدیک سب سے اہم چیز صنفی جینڈر حساسیت ہے، ہم انے اس کو سمجھا اور ہر جگہ خواتین کو مناسب نمائندگی دے رہے ہیں، صنفی امتیاز کی بنیاد پر ججز میں تفریق کرنا درست نہیں۔ میرے لئے یہ معنی نہیں رکھتا خاتون جج ہے یا مرد ہمیں خواتین سے متعلق مائنڈسیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مائنڈسیٹ تبدیل ہونا چاہئے کہ خاتون جج ہے توہلکے پھلکے کیس دیدو، اگر ایک خاتون مقابلہ کر کے جج بن گئی ہے تووہ باقی ججز کے برابر جج ہے۔ صنفی جینڈر حساسیت میں یہ بھی آتا ہے کہ ہم خواتین کی مشکلات کو سمجھیں، ان کی مشکلات کو حل کریں، آسانیاں پیدا کریں۔ پھر دیکھیں کہ وہ کیسے انصاف کرتی ہیں۔ ان کو ویسے ہی مقدمات دینے ہیں جو مرد ججز سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرد اور خواتین ججزاپنے اندر اعتماد پیدا کریں، ایکدوسرے سے سیکھیں اور سمجھیں، خواتین ججز خود کو کسی صورت کمتر نہ سمجھیں اور اپنے اندر پیشہ وارانہ اعتماد پیدا کریں۔ لوگ جب ہمارے ادارے کو دیکھیں تو ہماری مثال دیں ایسی جینڈر حساسیت ہونی چاہیئے عدلیہ میں۔ مرد ججز بھی اپنا مائنڈ سیٹ بنائیں اور سوچ میں تبدیلی لائیں کوئی جج خواہ وہ خاتون یا مرد ہے سب برابر ہیں، یہی حقیقی تبدیلی ہے۔ ایک خواب دیکھا تھا کہ ججز باعزت طریقے سے عدالتوں میں آئیں اور آج سے میرا یہ خواب پورا ہونے جا رہا ہے، تقریب سے خطاب میں مس جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ خواتین ججز کو کوٹہ کی بنیاد پر بھرتی نہیں کیا گیا، تمام خواتین ججز میرٹ کی بنیاد پر مقابلہ کر کے یہاں تک پہنچی ہیں، انہوں نے کہاکہ آج کی خواتین ججز دوسری خواتین کےلئے رول ماڈل ہیں۔

منصور علی شاہ

ای پیپر دی نیشن