;;فوجی افسر کو اغوا کے بعد قتل کے الزام میں قید مجرم کی سزائے موت کالعدم قرار

Jun 09, 2017

اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ نے کوہاٹ کینٹ سے فوجی افسر کو اغوا کے بعد قتل کے الزام میں قید مجرم کی سزائے موت کالعدم قرار دیدی تاہم عدالت نے مجرم کو اغوا کے جرم میں سنائی گئی 7سال قیدکی سزا برقرار رکھی ہے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ تبلیغ پر جاکر میران شاہ میں طالبان کے ساتھ مل جانے والے ایک مجرم عبدالرازق نے اپنے اعترافی بیان میں کہاکہ اس نے اپنے شریک مجرموں ابراہیم اور فوجی کے ہمراہ کوہاٹ چھاﺅنی پولیس سٹیشن کی حدود میں واقع ڈیفنس کالونی سے ایک فوجی افسر شکیل احمد طارق کو 27اگست 2011 میں اغواکیا لیکن اس دوران پولیس کا سامنا ہونے پر مقابلہ میں مغوی جاں بحق ہوگیا، وکیل درخواست گزارکا کہنا تھا کہ ملزم نے اعترافی بیان میں کہاکہ فوجی افسر کو تاوان کے لئے اغوا کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ ملزم کے اس اقدام کودہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ استغاثہ نے صرف ملزم کے اعترافی بیان پر انحصار کیا ہے جب وہ یہ بات نہیں کہہ رہا کہ اس نے مغوی کو قتل کیا تو اس کو دفعہ 302کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی عدالت نے ملزم کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 382کے تحت ملنے والی تما م رعایتیں دیتے ہوئے کہاکہ امید ہے ملزم باقی سز اپوری کرچکا ہے اور جلد رہا ہوجائے گا۔ پراسیکیوشن کی طرف سے کسی کودہشت گرد کہنے سے وہ دہشت گرد نہیں بن جاتا اس حوالے سے ٹھوس ثبوت بھی چاہئیں ملزم کی تحویل سے ہینڈ گرنیڈ بھی نہیں ملے وہ ایک کار سے ملے جو اس ملزم کی نہیں ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ اس تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست نے اس طرح کے مقدمات میں محنت کرنا چھوڑ دی ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ استغاثہ کے پاس کوئی شہادت موجود نہیں تو ملزم پرریڈ لیبل کیسے لگا دیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے لاہور میں سابق پولیس انسپکٹر نوید سعید کے قتل کے مقدمہ کے ملزموں کی بریت کے خلاف تین مقدمات دوبارہ فیصلے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کو بھجوا دیئے اور ہدایت کی ہائیکورٹ 31 دسمبر سے قبل میرٹ پر فیصلہ کرے ، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا ہائی کورٹ کے مقدمے میں خامیاں ہوں تو آنکھیں بند نہیں کرسکتے، اگر عدالت عالیہ فیصلے میں کوئی ایسی باتیں لکھ دے جو قانونی نہ ہوں تو اس کی تصحیح عدالت عظمی کا فرض ہے، سپریم کورٹ کا کام ہے قانون کا درست اطلاق کرائے اور قانون کی اس عدالت کے لیے سرکار، مدعی اور ملزم تمام فریقین ایک جیسے ہیں۔
سپریم کورٹ

مزیدخبریں