ستر سال سے سرزمینِ پاکستان میں مُلک اور قوم سے مٹھی بھر اشرافیہ کا طبقہ اپنی مرضی کے نظام حکومت پر چل رہا ہے جس نے نہ تو جمہور اور جمہوری ثمرات عوام تک پہنچائے ہیں اور نہ وطن عزیز میں اسلامی نظام حکومت کو ہی پوری طرح رائج کیا ہے۔
ہمارے طبقہ اشرافیہ نے تو جمہوری ثمرات عوام تک پہنچا نے کے بجائے اُلٹااِنہیں اپنی ذات اور اپنے دامن تک ہی محدود رکھاہواہے ۔جہاں تک پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت کا سوال ہے تو معاف کیجئے گا پاکستانی اشرافیہ کی نظر میں مُلک میں اسلامی نظامِ حکومت تو بس عیدین کی نمازوں کے اجتماعات اور عیدمیلاد البنی ﷺ اور یوم عاشورہ کے جلسے اور جلوسوں کی آزادی تک ہے ہمارا اشرافیہ اِسی کو ہی اسلامی نظامِ حکومت گردانتا ہے اور سمجھتاہے کہ بس یہی تو اسلامی نظامِ حکومت ہے۔ اِس کے علاوہ توکہیں بھی ایسا کچھ دِکھا ئی نہیں دیتاہے ‘یہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیںہے کہ لگ بھگ پونے صدی سے وطن عزیز پاکستا ن میں کیسا دوغلا نظامِ حکومت جمہوری اور اسلامی نظام چل رہاہے؟آج جس کا فائدہ امریکی پٹھو اشرافیہ کو ہی ہورہاہے‘ جنہوں نے مُلک میں لوٹ مار کی حد کردی ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کل تک الیکشن فارم میں ترمیم کرکے متوقع الیکشن2018 ء میں ایوانوں کو کرپٹ عناصر سے پاک رکھنے کے عزم پر قا ئم تھے آج ایک مرتبہ پھر مُلک میں ظاہر اور با طن بڑے چھوٹے کرپٹ سیاستدان اپنی کرپشن چھپانے کے لئے پھر اپنی ہی ترمیم پر پچھتاتے ہوئے باہم متحد و منظم ہیں اور ایک پیچ پرنظرآرہے ہیں ۔تاکہ اگلے متوقع الیکشن میں مختلف اقسام کے کرپٹ عناصر حصہ لے سکیں اور پانچ سال کے لئے مُلک کی باگ ڈورسنبھالیں۔
اِن کے اِس فعلِ سے یہی انداز ہورہاہے کہ جیسے کوئی نہیںچاہتاہے کہ اگلے متوقع الیکشن میںصاف سُتھرے لوگ ایوانوں میںجا ئیں اور صادق و امین صدر اور وزیراعظم کے زیر سائے ایماندار اور مخلص وزراء کی حکومت تشکیل پائے اور ارضِ مقدس کو کرپٹ عناصر سے پاک قیاد ت ملے جو مُلک اور معاشرے کو قرآن و سُنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق صاف سُتھرے انداز سے چلا ئیںاور مُلک آگے لے کر جا ئیں۔بہر کیف ، گزشتہ دِنوں اللہ اللہ کرکے قومی خزا نے سے لوٹ مار کرکے مُلک کی چولیں ڈھیلی کرنے اور قوم کا خون اور پسینہ چوسنے والوں سے جیسے ہی کچھ مدت کے لئے جان چھوٹی توالیکشن کمیشن نے ارضِ مقدس میں 25جولائی 2018ء کو مُلکی تاریخ کے اپنی نوعیت کے منفرد اور مہنگے ترین انتخابات کرانے کا اعلان کردیایقینا مقررہ تاریخ کو ہی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
غرضیکہ، مُلک بھر کے سیاسی حلقوں کے بال رومز میں’’الیکشن کاتہوار آگیاہے آؤ قوم کی آنکھ میں دھول جھونکیں‘‘ اور ووٹ کو عزت دو کے نام پراپنی ’ ’ موج مستی کا سا مان کریں‘‘ کا ڈنکا بچ گیاہے، یعنی کہ سیاسی جماعتوں کے مراکز میںالیکشن کی تاریخ کے آتے ہی خوشی سے رَت جگے ہو رہے ہیں ،اور اِس کے ساتھ ہی اُمیدوارانِ الیکشن سے کبھی تیز توکبھی دھیمی آواز وں میںیہ بازگشت بھی سُنی جا رہی ہے کہ بس صرف ’’ایک بار الیکشن میںپانچ سال کے لئے انویسمنٹ سرمایہ کاری کرو پھرپچاس سال بیٹھ کر کھاؤ‘‘ یہ وہ الفاظ اور جملے ہیں جن کی بنیاد پر سیاسی حلقے اور الیکشن میں حصے لینے والے خود کو وارم اَپ کئے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی کسی الیکشن کے موقع پر شاعر نے عرض کیا تھا ۔
کہہ رہا تھا اپنے ہر ووٹر سے ایک اُمیدوار
مجھ سے اُجرت لیجئے گا میری ہستی دیکھ کر
میںکسی مل کا نہ مالک ہوں نہ ہوں جاگیردار
بندہ پَر ووٹ دینا میری کُرسی دیکھ کر
اورمزید یہ کہ:۔
الیکشن نام ہے جس کا وہ خدمت ہے عبادت ہے
ہمارا ووٹ کیا ہے مُلک و ملت کی امانت ہے
مگر جب جائزہ اِس کا لیا تو یہ ہوا ثابت
الیکشن قوم کی خدمت نہیں ہے اِک تجارت ہے
اَب ایسے میں پاکستا نی قوم اور عوام کو بھی سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ اِنہیں اپنی کیسی قیادت چاہئیے؟قوم کو آئندہ 5سال کے لئے ماضی کی طرح پھرکرپٹ حکمران مطلوب ہیں؟ یا کرپشن سے پاک حکمران چاہئیں؟اگر پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ اِنہیں اپنی نسل کو تبدیلی کے ساتھ کرپٹ عناصر سے پاک نیا پاکستان دینا ہے تو پھر اپنے ووٹ کی طاقت کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور اچھی قیادت لا ئیں ورنہ؟