چیف جسٹس سپریم کورٹ کا ”پانی کو عزت دو“ کے ماٹو کے تحت کالاباغ ڈیم کیلئے مہم چلانے کا اعلان اور قوم کی تائید
سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پانی کی قلت کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا ہے کہ پانی کے مسئلے سے ہم آنکھیں بند نہیں کرسکتے‘ پانی کا مسئلہ مستقبل میں خطرناک ناسور بن سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کیلئے کراچی رجسٹری سے مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ پانی کا مسئلہ قوم کیلئے عذاب بن جائیگا۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بنچ میں کالاباغ ڈیم اور آبی قلت کے کیس کے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کاش میں پنجابی نہ ہوتا‘ کاش میں بلوچی یا سندھی ہوتااور سندھی کی نظر سے دیکھتا تو مجھے اس مسئلے کی سمجھ آتی۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری نے اپنے ادوار میں کالاباغ ڈیم کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں اس ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ پانی کی کمی کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اقتدار میں ہیں اور جو اقتدار چھوڑ کر گئے ہیں۔ زرداری اور نوازشریف آکر بتائیں کہ انہوں نے پانی کیلئے کیا کیا۔ کیوں نہ ان لوگوں پر پانی کے مسئلہ کی ذمہ داری ڈالی جائے۔ دوران سماعت فاضل عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں اس وقت 58.7 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جارہا ہے جبکہ یہاں پانی کی طلب 120 ملین گیلن سے بھی زائد کی ہے۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا کہ آج سے ہماری ترجیحات میں پانی سب سے اہم ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ کراچی کے بعد اب اسلام آباد میں بھی ٹینکرز کا پانی فروخت ہورہا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو انکے بنیادی حقوق دیئے جائیں لیکن یہاں ایسی صورتحال نہیں۔ ہم پانی کے مسئلہ پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرسکتے‘ ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔
فاضل چیف جسٹس نے بجا طور پر یہ باور کرایا کہ پانی نہ ہوا تو ہماری زمین بنجر ہو جائیگی‘ ووٹ کو یہ عزت ہے کہ ہم عوام کو صاف پانی اور ہوا دیں جبکہ یہاں اربوں روپے کا پانی سمندر میں ضائع کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے تنازعہ کے تصفیہ کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کی اور کہا کہ بھارت کی وجہ سے ہم نیلم دریا سے بھی محروم ہو جائینگے۔ ہمیں پانی کا مسئلہ بطور قوم حل کرنا ہوگا۔ ہمیں پانی کو عزت دینا ہوگی۔ فاضل عدالت نے اس کیس میں بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کو عدالتی معاون مقرر کردیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ پینے کے پانی کے ذخائر پر رپورٹ مرتب کرکے 21 جون کو عدالت میں پیش کریں۔ فاضل عدالت نے ازخود نوٹس کیس کو کالاباغ ڈیم پرریفرنڈم کی درخواست کے ساتھ یکجا کردیا۔
بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم پر گزشتہ چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے سیاست ہورہی ہے۔ اس ڈیم کے مخالفین تو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اسکی تعمیر کی نوبت نہ آنے دیکر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں جس کیلئے انہیں بھارت کی جانب سے باقاعدہ فنڈنگ ہورہی ہے جبکہ ہمارے اب تک کے تمام حکمران اپنی ذاتی کمزوریوں اور اپنے اقتدار کو ملک دشمنی پر اترے ہوئے مفاد پرستوں کا سہارا دیئے رکھنے کی خاطر انکے ہاتھوں مسلسل بلیک میل ہورہے ہیں اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر قومی اتفاق رائے کے ساتھ مشروط کردی گئی ہے جو ”نہ 9من تیل ہوگا‘ نہ رادھا ناچے گی“ کی نوبت لانے کے مترادف ہے۔ آج سوشل میڈیا پر پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کا مسئلہ اجاگر ہوا ہے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے ایشو نے بھی ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس معاملہ میں سوشل میڈیا کا کردار یقیناً قابل ستائش ہے جس پر ملک کے ہر طبقہ زندگی کے لوگوں نے کالاباغ ڈیم کے حق میں اٹھنے والی لہر کو پرجوش بنانے کیلئے اپنا حصہ ڈالا اور اس طرح جہاں پانی کی قلت کے مستقبل قریب میں منڈلاتے خطرات کی نشاندہی ہوئی وہیں ان خطرات سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے کالاباغ ڈیم کی اہمیت بھی اجاگر ہوئی چنانچہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا ایک خصوصی بنچ تشکیل دیکر ”پانی کو عزت دو“ کے ماٹو کے تحت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جو مفاد پرست سیاست دان قوم پرستی کی بنیاد پر اور علاقائیت کو ہوا دیکر کالاباغ ڈیم کی مخالفت پر ڈٹے ہوئے ہیں انہیں آج اس ارض وطن پر پانی کی شدید قلت کے منڈلاتے خطرات کا بھی احساس نہیں۔ چنانچہ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے گزشتہ ہفتے اپنی پارٹی کے ایک اجتماع میں خطاب کے دوران یہ دھمکی دینے سے بھی گریز نہ کیا کہ سپریم کورٹ اور اس سے بھی بڑے کسی فورم کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا جائے تو بھی ہم کالاباغ ڈیم نہیں بننے دینگے۔ یہ قوم کی خدمت اور اپنے علاقہ کی نمائندگی کی نہیں‘ درحقیقت ملک دشمنی کو فروغ دینے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم کو تقویت پہنچانے کی سیاست ہے اور آج ملک کے ہر محب وطن شہری کو اس امر کا احساس ہوچکا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیوالے طبقات اس ملک میں بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ معمار نوائے وقت مجید نظامی مرحوم نے کالاباغ ڈیم کیخلاف مہم چلانے والے سیاست دانوں کے اصل عزائم شروع دن سے ہی بھانپ لئے تھے اس لئے انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اپنے فورم پر باقاعدہ مہم چلانے کا فیصلہ کیا اور قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ بھارت ہم پر آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہورہا ہے تاکہ وہ ہماری سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل کرسکے۔ اس مقصد کے تحت ہی بھارت نے کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنوایا ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے ادارے کے انگریزی اخبار ”دی نیشن“ میں ”واٹر بم“ کے عنوان سے اپنے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کیا اور جب اے این پی سابق حکمرانوں کو 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کیلئے بلیک میل کرکے ان سے کالاباغ ڈیم کی فائل مستقل طور پر بند کرانے میں کامیاب ہوئی تو مرحوم مجید نظامی نے نوائے وقت گروپ کی جانب سے کالاباغ ڈیم پر قومی ریفرنڈم کے انعقاد کا اہتمام کیا۔ اس کیلئے نوائے وقت اور دی نیشن کے صفحہ¿ اول پر روزانہ اشتہار کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک بھر سے کالاباغ ڈیم کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ اس ریفرنڈم میں صوبہ خیبر پی کے سمیت ملک کے تمام صوبوں اور شمالی علاقہ جات تک سے عوام نے پرجوش حصہ لیا اور ریفرنڈم میں حصہ لینے والے 99.95 فیصد عوام نے کالاباغ ڈیم کی فوری تعمیر کے حق میں ووٹ دیا مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اے این پی اور سندھی قوم پرستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے کوئی پیش رفت نہ کرسکی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ کالاباغ ڈیم تو کجا‘ 1968ءسے اب تک ملک میں کوئی بھی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا جبکہ بھارت نے عالمی بنک سے 1960ءمیں اپنی مرضی کا سندھ طاس معاہدہ طے کرانے کے بعد اس میں تین دریاﺅں پر پاکستان کو دیئے گئے ڈیمز کی تعمیر کے حق سے بھی ہماری عاقبت نااندیشیوں کے باعث بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان دریاﺅں پر بھی چھوٹے بڑے ڈیمز کے انبار لگا دیئے جبکہ ہماری جانب سے ایوب خان کے دور میں 1960ءسے 1968ءتک جو سات ڈیم تعمیر ہوئے‘ اسکے بعد کے حکمرانوں نے ان ڈیمز پر ہی قناعت کرلی اور کسی نئے ڈیم کی تعمیر کی اب تک نوبت نہیں آنے دی جبکہ جرنیلی آمر ضیاءالحق نے پوری اتھارٹی رکھنے کے باوجود کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے کوئی پیشرفت نہ کی اور اسکے برعکس کالاباغ ڈیم کے مخالفین کو اپنی سیاست چمکانے کا مکمل موقع فراہم کیا۔ بدقسمتی سے انکے بعد آنیوالے جمہوری اور جرنیلی حکمرانوں نے بھی کالاباغ ڈیم کی قومی اہمیت کا احساس نہ کیا جبکہ کسی دوسرے ڈیم کے منصوبے پر بھی کام نہ ہوسکا‘ نتیجتاً ملک میں پانی کی قلت اور توانائی کے بحران نے سر اٹھایا جو آج ایک عفریت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ملکی اور عالمی آبی ماہرین ہماری دھرتی پر بتدریج پانی کی قلت اور کمیابی کی نشاندہی کرچکے ہیں اور انکی رپورٹیں یہ بتا کر سنگین خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں کہ آئندہ پانچ سے دس برس کے دوران زیرزمین پانی کی سطح اتنی نیچے چلی جائیگی کہ یہ پانی ہماری دسترس میں ہی نہیں رہے گا۔ ایسے سنگین حالات کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں کیونکہ سندھ اور چولستان کے پانی کی کمیابی والے علاقوں کے علاوہ اب ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے جس کا چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ اگر اس سنگین صورتحال میں بھی کالاباغ ڈیم کے مخالفین اپنی ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی پر قائم رہتے ہیں تو وہ درحقیقت ملک دشمنی پر اترے ہوئے ہیں۔ آج قوم کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اس حد تک آمادہ ہے کہ اجتماعی طور پر اسکی تعمیر کا سارا خرچہ اٹھانے کو بھی تیار ہے جس کیلئے سوشل میڈیا پر ملک کے ہر شہری کی جانب سے کالاباغ ڈیم کیلئے ایک ہزار روپے عطیہ کرنے کی مہم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہمیں بہرصورت اپنی سلامتی اور بقاءکیلئے فکرمند ہونا ہے جس کیلئے کالاباغ ڈیم کا ہماری دھرتی پر موجود ہونا ضروری ہے۔ اس کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی کاوشوں اور مرحوم مجید نظامی کی فکرمندی کو پیش نظر رکھ کر حکمرانوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فی الفور اعلان کردینا چاہیے۔ اس پر مزید سیاست اور مفاہمت کے ہم اب کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتے۔