”تیری بکل دے وچ چور“

خامہ بستی میںیوں تو کئی باسی دن رات اپنے قلم کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں لیکن خامہ سرائی کے فن پر مہارت کسی کسی کو نصیب ہوئی ہے ورنہ قرطاس پر لکھیریں بکھیرنا تو ایک بچہ بھی جانتا ہے۔ جو کتاب علمیت ‘ عام آدمی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی یا معاشرے کی اچھائی برائی کو اجاگرنہ کرتی ہو‘ وہ کتاب نہ صرف لائبریری پر بوجھ ہوتی ہے بلکہ قاری کی طبیعت پر بھی ناگوار گزرتی ہے۔
محترم سعید آسی کی کتاب ”تیری بکل دے وچ چور“ ہے میرے ہاتھ میں ہے۔ سعید آسی ایک ایسا نام جو قلم قبیلے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے 70ءکی دہائی میں اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا اور آج 2018ءمیں بھی ان کا قلم علم و ادب کے موتی بکھیر رہا ہے اور بے حس حکمرانوں اور سماجی و معاشرتی برائیوں کیخلاف جہاد کررہا ہے۔ انکی اب تک چھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں انکی پنجابی شاعری کے دو مجموعے ”سوچ سمندر“ اور ”رمزاں“ اردو شاعری کا ایک مجموعہ ”تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں“۔ دو سفرنامے ”آگے موڑ جدائی کا تھا“ اور ”جزیرہ جزیرہ“ نوائے وقت میں شائع ہونے والے انکے کالموں کا انتخاب ”کب راج کرے گی خلق خدا“ شامل ہے۔ ادارہ قلم فاﺅنڈیشن کے زیراہتمام انکی ساتویں کتاب ”تیری بکل دے وچ چور“ شائع ہوچکی ہے جس میں انکے نوائے وقت میں شائع ہونے والے 2015ءسے 2017ءتک کالموں کا انتخاب ہے۔ جو کالم اس کتاب میں شامل نہ ہوسکے‘ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کمزور کالم تھے بلکہ انفرادی طور پر دیکھا جائے تو ان کا ہر کالم اپنی مثال آپ نظر آئیگا۔حج کے حوالے سے بھی انکے چند کالم نوائے وقت کی زینت بنے جو کسی طرح بھی سفرنامے سے کم نہیں۔ ان کالموں کو پڑھ کر قاری اس مبارک سفر میں خود کو انکے ہمقدم محسوس کرتا ہے اور زیارتوں کا احوال پڑھ کر لگتا ہے قاری خود بنفس نفیس وہاں موجود ہے۔ کتاب میں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ سماجی اور معاشرتی رویوں پر بھی ان کا دل کڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا ہے: ”مجھے تو بس اپنے آئین کے طالب علم ہونے پر تاسف ہے کہ اسکے باعث میں نے آئین کی پاسداری و عملداری کو ہی مقدم جان لیا ہے جس میں امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کیلئے تمام ریاستی آئینی اداروں کی ذمہ داریوں کی حدودوقیود واضح طور پر متعین کردی گئی ہیں۔ میرا مطمح¿ نظر یہی ہے کہ جب تک یہ آئین رائج ہے‘ تمام اور حکومت و مملکت اسکی روشنی میں ہی سرانجام پانے ہیں اور اگر کوئی ریاستی‘ انتظامی ادارہ یا اس سے وابستہ کوئی شخصیت آئین میں متعین اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو اس پر ہر صورت آئین کی عملداری لاگو ہونی چاہیے۔ اگر موجودہ آئین کے تحت رائج نظام ملک‘ قوم اور عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا اور اس میں کسی قسم کی اصلاحات کی ضرورت ہے تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اسکی موجودگی میں ہی ملک میں جنگل کا قانون لاگو کردیا جائے۔ خدا لگتی کہئے‘ آج سیاسی ‘ معاشرتی‘ عدالتی اور عسکری محاذوں پر ملک کا جو نقشہ بنا ہوا ہے‘ کیا اسے ہم آئین کی پاسداری و عملداری والے معاشرے سے تعبیر کرسکتے ہیں؟ میرا یہ المیہ ہے کہ زہر ہلال کو کبھی قند نہیں کہہ پایا چنانچہ میرا آئین اور اسکے تحت قائم سسٹم پر یقین ہے تو آئین اور اسکے تحت قائم سسٹم کے ساتھ کھڑا ہوا میری مجبوری ہے۔ “
ان کا یہی تجسس ہے جو انکے کالموں میں جابجا نظر آتا ہے۔ بے حس حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور روز افزوں مہنگائی کے باعث ناتواں عوام اپنے کمزور دانتوں سے زندگی کی ہڈی چبانے پر مجبور ہیں‘ ان بے بس و مجبور عوام کے جذبات کا کتھارسس کرتا ان کا ہر کالم عوام کی آواز نظر آئیگاجبکہ سیاسی کالموں میں ان کا قلم حکمرانوں کے ضمیروں پر لفظوں کے کنکر برساتا نظر آتا ہے۔
خامہ بستی کے لوگوں سے میرا کوئی خاص تعلق تو نہیں لیکن جب یہ کتاب میری نظر سے گزری تو مجھے اس کتاب نے اس بستی کی گلیوں کا ”بنجارہ “ بننے پر مجبور کردیا ۔ کتاب پر لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن کچھ قارئین کی دلچسپی کیلئے چھوڑتا ہوں۔ اگر سب کچھ میرے قلم نے ہی اگل دیا تو قاری کتاب میں محو ہونے سے محروم رہ جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن