”عشق پوائیاں زنجیراں“

کسی نے اشفاق احمد سے سوال کیا کہ عشق کیا ہے انہوں نے جواب دیا ”اخلاص“ پھر پوچھا گیا کہ اسکی انتہا کیا ہے۔ جواب دیا گیا ”وحدانیت“ ایک مرتبہ اشفاق احمد کے دفتر میں دانشوروں کی ایک بیٹھک تھی۔ آپ اُن کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ اُن سے کسی لکھاری نے سوال کیا کہ ایک شخص جو دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے مثلاً ایک لکھاری ہے وہ اپنا کام کر رہا ہے تو وہ اُس کے لئے عبادت نہیں ہو جاتا اشفاق احمد نے جواب دیا نہیں بالکل نہیں جو فرض عبادتیں ہیں اُن کا کوئی بدل نہیں وہ معاف نہیں ہو سکتیں۔ نمازیں پانچ ہی رہیں گی خلوص نیت، ایمانداری، جوابدہی وہ خصوصیات ہیں۔ جو انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ اُسکے کردار کی عظمت کا کھلم کھلا اعتراف ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس اگر انسان میں اسکے خلاف منفی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں تو وہ گمراہی کے رستے پر چل پڑتا ہے۔ اور سب سے پہلے اُس سے اخلاص چھن جاتا ہے اور پھر وحدانیت وہ زر کا غلام ہو جاتا ہے۔ نفس اُس پر حاوی ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اُسکی فکر میں تخریب رونما ہونے لگتی ہے۔ ایک فکری تخریب معاشرے کے سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی پہلووو¿ں پر اثر انداز ہوتی ہے ہر حکومت کے جانے کے بعد صورتحال اُس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ جسکا حکمران دعویٰ کرتے ہیں۔ تمام نظامہائے زندگی کے روبہ زوال ہونے کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ہماری نیتوں میں اخلاص کا فقدان ہوتا ہے کسی مفکر نے لکھا کہ اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جمہوریت ”خال خال“ ہوتی ہے۔ لہٰذا ہماری ملکی ترقی کے لئے ہر کاوش پامال ہو جاتی ہے۔ امریکہ کا سیاسی نظام جسے جمہوریت کہا جاتا ہے اور اقتصادی نظام جو کہ سرمایہ داری نظام کی صورت ہے۔ سوویت یونین سے یکسر مختلف ہے۔ بلاشبہ اس نظام میں خامیاں بھی موجود ہیں۔ مگر وقت نے ثابت کیا ہے کہ تمام ترقباحتوں اور خامیوں کے باوجود اس نظام میں حالات سے مقابلہ کرنے کی سکت پائی جاتی ہے یعنی اس نظام میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ اگر اقتصادی ترقی کی گاڑی پٹری سے اتر جائے تو اُسے دوبارہ پٹری پر چڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا المیہ تو یہی رہا ہے کہ ہم ہمیشہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچاتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کے لغوی مفہوم سے کوسوں دور ہیں۔ جس دن ہم یہ سیکھ جائیں گے کہ جمہوریت کے اصولوں میں پہلا اصول ”اخلاص“ ہے۔ تب نہ تو جمہوریت ڈی ریل ہوگی۔ نہ ہمیں اپنی تقاریر میں جمہوریت پر بھاشن دینا پڑے گا نہ گالی گلوچ اور مار پیٹ کی سیاست جنم لے گی۔ اور نہ ہی جھوٹے دعوو¿ں سے عوام کو بہلانا پڑے گا۔ اب سوچنا تو یہ ہے کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی۔ ایک سیاح پاکستان آیا ایک صحافی نے اُس سے سوال کیا کہ آپ نے چھ ماہ پاکستان گزارے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ کرائسیس کا شکار کیوں ہے۔ اُس سیاح نے جواب دیا کہ اسکا صرف ایک جواب ہے۔
"To Put the cart before the horse"
جس دن ہمیں غلطی کا احساس ہوا۔ وہیں سے معاملات کی درستگی ممکن ہے علامہ شبلی نے زوال پذیر معاشرے کی بہتری کے لئے کہا تھا کہ اگر کوئی معاشرہ تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے تو اُسے چاہئے کہ وہیں سے سفر کا آغاز کرے جس نکتے سے اُس نے آغاز کیا تھا۔ ساتھ میں وہ جنون اور سفر عشق کو لازمی اہمیت دیتے ہیں۔ جنون اور عشق انسان کو اپنے مقصد میں مقید کر لیتا ہے۔ اور وہ اسکے حصار میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ”راجہ گدھ“ میں بانو قدسیہ نے بھی اسی فلسفے پر یہ سیرحاصل بحث کی ہے کہ عشق مجازی ہو یا حقیقی وہ سحر انگیزی پیدا کرتا ہے کہ مساختوں کی صعوبتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اور جب کوئی مقصدیت پیدا ہو جائے تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں ہمارا جنون، عشق اور مطمع نظر تو اس خطے کا اصول تھا کہ جہاں پر سکھ اور امن کا سانس یہاں کے رہنے والے ہر شخص کو میسر ہو۔ ہمیں انتظامی نہیں فکری اصلاحات کی ضرورت ہے اور فکری اصلاحات میں حب الوطنی کا جذبہ سرفہرست ہونا لازمی ہے۔ سازشی اور غداری تو ہر دور میں پائے جاتے ہیں لیکن جہاں پرنظام عدل فعال طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہو وہاں یہ عناصر دب جاتے ہیں۔ یا قانون کے خوف سے منفی سرگرمیوں سے باز رہتے ہیں۔ اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ہم زوال کا شکار ہیں ہمارے پاس الٰہ دین کا چراغ تو نہیں ہے کہ حالات درست کئے جا سکیں جو کہ ستّر سالوں کا شاخسانہ ہیں۔ ہم ستّر سالوں سے اچھے لوگوں کی تلاش میں ہیں کہ وہ سیاستدان کب اور کہاں پیدا ہوں گے جنہیں ہم مسیحا قرار دے سکیں۔ جمہوریت چاہے صدارتی ہو یا پارلیمانی ہرگز تمام خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتی، البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر ہم ناپسندیدہ لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور آزادی تحریر و تقریر سے اپنی بات ایوانوں تک پہنچا سکتے ہوں اور ہمارے پاس ایسا مربوط نظام بھی ہو کہ ہماری آواز کی شنوائی ہو سکے تو یقیناً ہم بہتر نتائج کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لئے نہ تو الہ دین کے چراغ کی ضرورت ہے اور نہ جادو کی چھڑی کی ضرورت ہے بلکہ وہ جمہوریت درکار ہے جس کے صحیح معنوں میں خدوخال واضح ہوں اورجس میں احتساب، جوابدہی اور احساسِ ذمہ داری کے اصولوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہو۔

ای پیپر دی نیشن