بھارت کی طرف سے پاکستان پر اکثر اوقات مضحکہ خیز الزامات لگتے رہتے ہیں ان کے ہاں دائود ابراہیم بھی پاکستان کا جاسوس ہے اور اس کی فضائوں میں اڑنے والاکبوتر بھی وہ پکڑ لیتاہے کہ پاکستان کے لیے کام کر رہا ہے بیچارہ معصوم پرندہ کھلی فضائوں کا باسی ۔چھوٹے چھوٹے بچے اگرکھیلتے کودتے ہوئے غلطی سے سرحد پار چلے جائیں تو وہ اُسامہ ن لادن کے پائے کے دہشت گرد ٹھہرادیے جاتے ہیں اور اُنہیں مہینوں اور سالوں کے لیے قید کر لیا جاتا ہے، خوب واویلا کیا جاتا ہے اور اُس کا پورا میڈیا چیخنے لگ جاتا ہے، غیر فطری طریقے سے پروپیگنڈا شروع کر دیا جاتا ہے اور پاکستان پر ایسے ایسے الزامات لگاتے جاتے ہیں جن کی کوئی منطق ہوتی ہے نہ دلیل ۔ابھی بھی اُس نے ایک ایسا ہی شو شا چھوڑا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں دہشت گردی کرنے والے طالبان کو کشمیر بھیجنے کی کوشش اور منصوبہ بندی کر رہا ہے یعنی بالفاظ دیگر طالبان پاکستان میں اپنے مشن سے ریٹائرمنٹ لے کر فارغ ہو رہے ہیں اور نئی نو کری کے لیے بھارت جا رہے ہیں ویسے آئیڈیا بھارت کا بُرا نہیں اُس کے بھیجے ہوئے اور پالے پوسے ہوئے یہ دہشت گرد اب اگر بھارت بھیج دیے جائیں تو بہتر ہوگا کیونکہ پاکستان ان کو بہت بھگت چکا بھارت ان کی بھارت میں بھی پذیرائی کرتا ہے اور افغانستان میں تو ان کی پیدائش اور نشوونما سب کچھ ہوتا ہے۔ ان کو پال پوس کر جوان کرنے والے بھی اسی بھارت سے افغانستان آتے ہیں یہاں بھارت کے ستائیس قونصل خانے ہیں اور یہ تعداد اُس ملک میں ہے جہاں ایک ہی ایسا شہر ہے جس کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اب ان چھوٹے موٹے شہروں میں قونصل خانوں کا ہونا کیا جواز رکھتا ہے سوائے اس کے کہ ان کا کوئی خاص مشن ہو اور یہاں ان کا خاص مشن افغان عوام میں پاکستان کے خلاف زہر پھیلانا ہے اور ساتھ ہی یہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے وہ انہیں دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت دیتا ہے یہ بات سوچنے کی ہے کہ پہاڑوں میں رو پوش اور دنیا سے کٹے ہوئے دہشت گردوں کے پاس آخر تمام ضروریات زندگی کیسے پہنچتی ہیں اور نہ ختم ہونے والا اسلحہ کہاں سے آرہا ہے آخر انہیں یہ اسلحہ کون دے رہا ہے ظاہر ہے کہیں سے تو آرہا ہے وہ خود اگر بنا بھی رہے ہوتے ہیں تو اس کا خام مال کہاں سے آرہا ہے۔ بھارت کے درجنوں قونصلیٹ افغانستان میں یہی تو کام کر رہے ہیں کہ اپنے ان وحشی جانوروں کو خوراک فراہم کر سکیں۔ اب اگر یہ طالبان پاک فوج اور عوام کے حوصلے اور ہمت کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں اور اپنی سرگرمیاں کچھ کم کر دی ہیں اگرچہ ختم اب بھی نہیں ہوئیں ہیں تو بھارت سے یہ ہضم نہیں ہو رہا اور اس نے الزام لگا دیا کہ پاکستان نے انہیں کشمیر بھیج دیا ہے یا ایسی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔کشمیر میں بھارت جو کچھ کر رہا ہے وہ جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بھی وہ جنگ آزادی لڑنے والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے ان کو غائب کر کے ساری عمر کے لیے کسی اذیت خانے میں ڈال دیتا ہے اور پھر ان کی لاش کسی
اجتماعی قبر سے برآمد ہوتی ہے، وہ ان کی مائووں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کرتا ہے جو ہرکشمیری کو خود ہی طالبان بنا دیا ہے اس کا جنون نہ تو اُسے طالبان کا محتاج رہنے دیتا ہے نہ پاکستان کا وہ خو د ہی انتقام لینے نکل کھڑا ہوتا ہے اور جان سے گزر جاتا ہے کیوں کہ وہ ، وہ تڑپ اور سسکی برداشت نہیں کر سکتا جو اُس کی ماں بہن اور بیٹی کے ہونٹوں سے نکلتی ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان طالبان کو اب بھارت بھیج رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا دست شفقت اب بھی طالبان کے سر پر ہے اور دہشت گردی کے واقعات اب بھی پاکستان میں ہو رہے ہیں اور جو کمی آئی ہے وہ اسے پشتین جیسے لوگوں کو آگے لا کر پو را کر رہاہے اِس کے منہ سے فوج کو گالیاں دلوائی جارہی ہیں عوام کو فوج کے خلاف کرنے کی سٹریٹجی اپنائی جا رہی ہے امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سیکیورٹی ادارے جو اقدامات کر رہے ہیں ان کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے مانا کہ ان سے عوام کو کچھ مسائل پیش آتے ہیں مگر عوام کی زندگی کی حفاظت سب سے زیادہ ضروری ہے لیکن بھارت کی دلچسپی ظاہر ہے عوام مخالف چیزوں میں زیادہ ہے۔ وہ اپنے عوام کے لیے بھی اتنا فکر مند نہیں جتنا پاکستان میں مسائل کھڑے کرنے کے لیے فکر مند رہتا ہے اور ساتھ ہی دنیا میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ کشمیر پر اس نے نا جائز قبضہ کیا ہوا ہے اور مقبوضہ قومیں اپنی آزادی کی جنگیں لڑتی ہی ہیں اور آزادی حاصل بھی کر لیتی ہے۔ کشمیری بھی پچھلے ستر سال سے اپنی الحا ق پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور آزادی ان کا حق ہے چاہے وہ اس کے لیے جو بھی طریقہ کار اختیار کریں۔ اگرچہ بھارت کے دیگر صوبوں میں بھی کروڑوں مسلمان بستے ہیں لیکن کشمیر کا محل وقوع اسے قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ بناتا ہے اور اسی لیے کشمیری اپنا یہ حق چھوڑنے پر کسی طور پر آمادہ نہیں چاہے اس کے لیے وہ اپنی مدد آپ کرے یا کسی سے مدد لے بے شک کہ پاکستان کشمیر کی اخلاقی اور سیاسی مدد کر رہا ہے اور اس کی آزادی تک کرتا رہے گا لیکن بھارت کے طریقہء کار یعنی دہشت گردی سے نہیں ۔ طالبان سے پاکستان نے کسی صلح کا اعلان نہیں کیا وہ اب بھی جابجا اپنی خونی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملے کرتے ہیں، آئے روز کسی بارودی سرنگ پر پیرا ٓجانے یا کسی فوجی قافلے پر گھات لگا کر حملہ کرنے یا کسی خود کش کے حملے سے شہادتیں ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں اور ایک طالبان ہی کیا بھارت کے حمایت یا فتہ بلوچ شدت پسند ، پشتین جیسا شرپسند بھی موجود ہیں حتٰی کہ کچھ بھارت پسند سیاستدان بھی عام لوگوں کو ملک کے خلاف اکساتے رہتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر کھلے عام یہ کام کرتے ہیں۔ اس لیے بھارت کو اپنے حا لات اور حرکات پر خود سوچ لینا چاہیے کشمیر پر اس نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے وہ اُس کا نہ تو جغرافیائی طور پر حصہ ہے نہ مذہبی اور معاشرتی طور پر لہٰذا بھارت کو کشمیر کو آزادی دے دینی چاہیے ایسا کر نے سے شاید اس کے مسائل میں کمی ہو ورنہ کشمیر کا یہ خنجر اُس کے سینے میں کھبا رہے گا ۔ کشمیر سے فرصت کے بعد وہ خالصتان ،ناگالینڈ، تری پورہ اور درجنوں دوسری آزادی کی تحریکوں کی طرف توجہ دے سکے گا جن کے لیے اس کے پاس یہ بات بھی کرنے کو نہیں ہے کہ پاکستان ان تحریکوں کو جلا بخشنے کے لیے طالبان کو بھیج رہا ہے۔ بھارت اپنے حالات پر اگر پاکستان کی نسبت زیادہ توجہ دیتا تو آج پاکستان بھی آرام سے ہوتا اور بھارت کے کوڑے کے ڈھیروں پر پلتے عوام کے حالات بھی کہیں اچھے ہوتے۔